Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 101
وَ كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ وَ اَنْتُمْ تُتْلٰى عَلَیْكُمْ اٰیٰتُ اللّٰهِ وَ فِیْكُمْ رَسُوْلُهٗ١ؕ وَ مَنْ یَّعْتَصِمْ بِاللّٰهِ فَقَدْ هُدِیَ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۠   ۧ
وَكَيْفَ : اور کیسے تَكْفُرُوْنَ : تم کفر کرتے ہو وَاَنْتُمْ : جبکہ تم تُتْلٰى : پڑھی جاتی ہیں عَلَيْكُمْ : تم پر اٰيٰتُ : آیتیں اللّٰهِ : اللہ وَفِيْكُمْ : اور تمہارے درمیان رَسُوْلُهٗ : اس کا رسول وَمَنْ : اور جو يَّعْتَصِمْ : مضبوط پکڑے گا بِاللّٰهِ : اللہ کو فَقَدْ ھُدِيَ : تو اسے ہدایت دی گئی اِلٰى : طرف صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا راستہ
اور تم کس کفر قبول کرسکتے ہو حالانکہ تم کو اللہ کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی ہیں اور تم میں اس کا رسول بھی موجود ہے اور جس نے اللہ تعالیٰ کو یعنی اس کے دین کو مضبوط پکڑا تو بیشک اس کی سیدھی راہ کی جانب رہنمائی کی گئی ۔4
4 اور بھلا تم کفر کی روش کس طرح اختیار کرسکتے ہو۔ حالانکہ تم کو اللہ تعالیٰ کے احکام اور اس کی آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں اور تم میں اللہ تعالیٰ کا رسول موجود ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کو یعنی اس کے دین کو مضبوط پکڑتا ہے تو یقیناً ایسا شخص راہ راست اور صراط مستقیم کی جانب رہنمائی کیا جاتا ہے۔ اعتصام کسی چیز کو مضبوط پکڑنا۔ اللہ تعالیٰ کو مضبوطی کے ساتھ پکڑنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے دین کو مضبوط پکڑنا یا کتاب کو مضبوط پکڑنا یا ایمان کو مضبوط پکڑنا یا یہ کہ ماسویٰ اللہ سے یکسو ہو کر صرف اللہ پر توکل کرنا اور اللہ سے تعلق قائم رکھنا۔ آیات اللہ سے مراد احکام الٰہی یا قرآن ہے رسول اللہ سے مراد حضرت محمد ﷺ ہیں۔ آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانو ! تم کو یہ کس طرح جائز ہوسکتا ہے کہ اللہ کا رسول تم میں موجود ہے قرآن کی تم پر تلاوت کی جاتی ہے۔ ایسی حالت میں کہ قرآن و پیغمبر تم میں موجود ہو اور پھر تم عملاً یا اعتقاداً کفر کی طرف مائل ہو جائو اور کافرانہ روش اختیار کرنے پر آمادہ ہو جائو۔ کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط رکھتا ہے تو اس کو راہ راست پر قائم رہنے کی توفیق نصیب ہوتی ہے اور اس کو راہ راست کی ہدایت کی جاتی ہے۔ اس آیت میں جن مسلمانوں کو خطاب ہے وہ صحابہ ؓ ہیں کیونکہ اس زمانے میں قرآن اور رسول دونوں موجود تھے اور چونکہ قرآن قیامت تک مسلمانوں میں باقی رہنے والا ہے اور اسی طرح نبی کریم ﷺ کی روحانیت اور آپ کی رحمت بھی قیامت تک سایۂ افگن ہے اس لئے حضرات صحابہ کے علاوہ عام مسلمان بھی مراد لئے جاسکتے ہیں۔ (واللہ اعلم) اب آگے مسلمانوں کو تقوے اور پرہیزگاری کی تاکید ہے اور احسانات خداوندی کو یاد دلانا ہے اور مسلمانوں کو باہمی خانہ جنگی کی ممانعت اور باہمی تفریق کے نقصانات سے آگاہ کرنا ہے۔ (تسہیل)
Top