Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 45
اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓئِكَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ١ۖۗ اسْمُهُ الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْهًا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَۙ
اِذْ : جب قَالَتِ : جب کہا الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتے يٰمَرْيَمُ : اے مریم اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُبَشِّرُكِ : تجھے بشارت دیتا ہے بِكَلِمَةٍ : ایک کلمہ کی مِّنْهُ : اپنے اسْمُهُ : اس کا نام الْمَسِيْحُ : مسیح عِيْسَى : عیسیٰ ابْنُ مَرْيَمَ : ابن مریم وَجِيْهًا : با آبرو فِي : میں الدُّنْيَا : دنیا وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت وَمِنَ : اور سے الْمُقَرَّبِيْنَ : مقرب (جمع)
وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جبکہ فرشتوں نے کہا اے مریم اللہ تعالیٰ تجھ کو ایک ایسے کلمہ کی بشارت دیتا ہے جو خدا کی جانب سے ہوگا یعنی اس کے لفظ کن کا ظہورہو گا اس کا نام مسیح عیسیٰ (علیہ السلام) ابن مریم ہوگا وہ دنیا اور آخرت میں ذی مرتبت ہوگا اور مقرب بارگاہ لوگوں میں سے ہوگا1
1۔ وہ وقت یاد کرو جب فرشتوں نے حضرت مریم سے کہا اے مریم یقینا اللہ تعالیٰ تجھ کو ایک ایسے کلمہ کی بشارت دیتا ہے جو اس کی جانب سے ہوگا یعنی بغیر کسی باپ کے محض اللہ کے حکم سے تیرے ہاں بچہ پیدا ہوگا ۔ اس کا نام اور لقب اور اس کی کنیت مسیح عیسیٰ بن مریم ہوگا وہ دنیا اور آخرت دونوں میں ذی وجاہت اور آبرو والا ہوگا اور وہ مقربین بارگاہ الٰہی میں سے ہوگا ۔ فرشتوں سے مراد چند فرشتے یا حضرت جبریل (علیہ السلام) ہیں ۔ مسیح کے معنی بہت سے ہیں ۔ بکثرت سفر کرنے والا ، ہاتھ پھیرنے والا ، ہر قسم کی پلیدگی سے صاف کیا گیا ، صدیق با برکت یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ معرب ہو اور اصل لفظ کوئی عبرانی ہو۔ صاحب قاموس فرماتے ہیں اس کے اشتقاق میں علماء کے پچاس اقوال ہیں ۔ احادیث میں دجال کو بھی مسیح کہا گیا ہے وہ بھی اس کی سیاحت یا ممسوح العین ہونے کی وجہ سے کہا اور اصل یہ ہے کہ مسیح اضداد میں سے ہے اس کے معنی با برکت کے بھی ہیں اور ملعون کے بھی ہیں با برکت ہونے کے اعبار سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا لقب ہے اور ملعون ہونے کے اعتبار سے دجال کا اس کے معرب ہونے میں کئی قول ہیں ۔ عام طریقہ سے مفسرین نے الیشوع کا معرب کہا ہے۔ ( واللہ اعلم) کلمۃ اللہ کی وجہ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں چونکہ ان کی پیدائش عام طور پر مردو عورت کی مواصلت سے نہیں ہوئی بلکہ غیر فطری طور پر بغیر بات کے ہوئی تھی اور وہ محض لفظ کن کے مظہر تھے اس لئے ان کو کلمۃ اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ اس عالم کی ہر چیز ہی لفظ کن کا ظہور ہے لیکن اس عالم تکوین میں ہر چیز کا کوئی نہ کوئی سبب متعارف موجود ہے لیکن حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش میں چونکہ سبب متعارف مفقود تھا اس لئے ان کا لقب کلمۃ اللہ فرمایا اور ان کو ابن مریم (علیہ السلام) کہنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ چونکہ ان کا کوئی باپ نہ تھا اس لئے بجائے باپ کے ان کی نسبت ماں کی طرف کی گئی دنیا کی وجاہت یہ کہ وہ نبی اور مقتدر تھے اور آخرت کی وجاہت یہ کہ جنت میں بلند مقام پر فائز ہوں گے اور لوگوں کی شفاعت کریں گے جو تقریب انبیاء کو حاصل ہوتا ہے وہ ان کو بھی حاصل ہوگا ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت پہلے نبیوں نے دی تھی کہ مسیح پیدا ہوگا جس سے بنی اسرائیل کو عروج ہوگا ۔ مسیح کے معنی جس کے ہاتھ لگانے سے بیمار اچھے ہوں ۔ یا جس کا کہیں وطن نہ ہو ہمیشہ سیاحی میں رہے ۔ سو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے اور یہود ان کو نہیں مانتے ۔ جب یہود میں دجال پیدا ہوگا وہ آپ کو مسیح (علیہ السلام) کہے گا یہود اس کو مسیح (علیہ السلام) مانیں گے۔ ( مواضح القرآن) یعنی دجال مسیح (علیہ السلام) ہونے کا دعویٰ بھی کرے گا اور یہود اس کی جو کچھ وہ کہے گا تسلیم کریں گے ۔ یہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے انکار کی لعنت کا اثر ہوگا کہ دجال کی خدائی پر ایمان لائیں گے۔ اب آگے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے اور اوصاف مذکور ہیں۔ ( تسہیل)
Top