Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 92
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ١ؕ۬ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ
لَنْ تَنَالُوا : تم ہرگز نہ پہنچو گے الْبِرَّ : نیکی حَتّٰى : جب تک تُنْفِقُوْا : تم خرچ کرو مِمَّا : اس سے جو تُحِبُّوْنَ : تم محبت رکھتے ہو وَمَا : اور جو تُنْفِقُوْا : تم خرچ کروگے مِنْ شَيْءٍ : سے (کوئی) چیز فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ بِهٖ : اس کو عَلِيْمٌ : جاننے والا
جب تک تم ان چیزوں میں سے جن کو تم عزیز رکھتے ہو کچھ خرچ نہ کرو گے اس وقت تک تم حقیقی بھلائی کو ہرگز نہ پہنچو گے اور تم جو کچھ بھی کرتے ہو سو اللہ تعالیٰ اس کو خوب جانتا ہے1
1۔ تم لوگ اس وقت تک حقیقی بھلائی اور کامل مکمل نیکی نہیں حاصل کرسکو گے جب تک تم اپنی محبوب اور عزیز ترین چیز میں سے کچھ خرچ نہ کرو اور بہر حال تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے خواہ وہ محبوب ہو یا غیر محبوب ، سو اللہ تعالیٰ اس کو خوب جانتا ہے۔ ( تیسیرض بر کے معنی سورة بقرہ میں گزر چکے ہیں بر کی نسبت اگر بندے کی جانب ہو تو اس سے مراد طاعت ، صدق اور وسعت احسان لیا کرتے ہیں اور خدا کی طریہ لفظ مضاف ہو تو اس کے معنی رضا رحمت جنت ہوا کرتے ہیں۔ حضرت ابوبکر وراق فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ تم لوگ میری بر کو اس وقت تک حاصل نہیں کرسکتے جب تک اپنے بھائیوں کے ساتھ بر نہ کروحاصل یہ ہے کہ جب تک محبوب کو اپنے سے جدا نہ کرو گے مطلب تک نہ پہنچو گے۔ حضرت واسطی رحمت اللہ علیہ نے فرمایا پسندیدہ چیزوں میں سے کچھ خرچ کرنا بر تک پہنچا دیتا ہے اور اگر کوئی شخص رب تک پہنچنا چاہے تو اس کو نین سے دست برداری کرنی چاہیے بر کا استعمال صدق اور حسن خلق کے لئے بھی آتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود سے مرفوعا ً روایت ہے تم لوگ صدق کو لازم پکڑو صدق انسان کو بر تک پہنچاتا ہے اور بر انسان کو جنت میں لے جاتی ہے آدمی ہمیشہ سچ بولتا اور سچ کا خیال رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کو صدیقین میں لکھ دیا جاتا ہے اور یہ دیکھو کذب سے بچو کذب انسان کو فسق و فجور تک لے جاتا ہے اور فجور آدمی کو آگ میں داخل کردیتا ہے آدمی ہمیشہ جھوٹ بولتا اور جھوٹ بولنے کی فکر میں رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے نو اس بن سمعان سے مرفوعاً روایت ہے کسی نے دریافت کیا یا رسول اللہ ﷺ ! بر کیا ہے ۔ آپ نے فرمایا حسن خلق اس نے عرض کیا اثم کیا ہے آپ نے فرمایا جو تیرے سینے میں کھٹکے اور تو اس کو لوگوں کے علم میں لانا پسند نہ کرے۔ بہر حال بر کے معنی جو کچھ بھی ہوں یہاں مراد یہ ہے کہ تم حقیقت بر اور کمال خیر کو نہیں پہنچ سکتے جب تک پسندیدہ اور محبوب چیز سے کچھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہ کرو اور یہ ترجمہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم ایسا ثواب جو تم کو جنت میں لے جائے ، نہیں حاصل کرسکتے جب تک پسندیدہ چیزوں میں سے کچھ خدا کی راہ میں خیرات نہ کرو پھر فرمایا اس کا خیال رکھو جو بھی خرچ کرو گے اور جیسا بھی خرچ کرو گے اور جس وقت بھی خرچ کرو گے ان سب حالتوں سے اللہ تعالیٰ با خبر ہے خواہ اچھی چیز خیرات کرو اور دل سے خیرات کردیا بری چیز خیرات کرو اور دکھاوے کو خیرات کرو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی جس چیز سے دل بہت لگا ہو اس کا خرچ کرنا بڑا درجہ ہے اور ثواب ہر چیز میں ہے شاید یہود کے ذکر میں یہ آیت اس لئے فرمائی کہ ان کو اپنی ریاست بہت عزیز تھی جس کے تھامنے کو نبی کے تابع نہ ہوتے تھے تو جب وہی نہ چھوڑیں اللہ کی راہ میں درجہ ایمان نہ پاویں ۔ ( موضح القرآنض شاہ صاحب (رح) خوب بات فرمائی اور ربط کی تقریر بھی خوب فرمائی ۔ گویا محبوب ریاست و وجاہت کی محبت اور بر ایمان ۔ فقیر عرض کرتا ہے کہ دونوں لفظوں میں اتنی گنجائش ہے کہ جو معنی چاہے کرلو خلاصہ یہ ہے کہ مقصود حقیقی جب حاصل ہوگا جب عزیز ترین چیز خدا کی راہ میں قربان کرو گے۔ یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اسلام کی عزت اور اسلامی اقتدار مقصود ہے تو جان اور مال خدا کی راہ میں قربان کردو ( سبحان اللہ) کیا کلام ہے جس کی وسعت کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں۔ حضرت حسن (رح) فرماتے ہیں آیت کے معنی یہ ہیں کہ تم اس وقت تک ابرار میں شامل نہیں ہوسکتے جب تک اپنی محبوب چیزوں میں سے کچھ خرچ نہ کرو ۔ اس آیت کو سن کر اکثر صحابہ نے اپنی بہترین اور پسندیدہ چیزیں خیرات کردیں ۔ حضرت ابو طلحہ ؓ کے باغ کا واقعہ تو سورة بقرہ میں گزرچکا ہے۔ حضرت عمر ؓ نے ایک لونڈی کو جوان کو پسندیدہ تھی آزاد کردیا۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ نے بھی ایسا ہی کیا ۔ زید بن حارث نے آیت کو سن کر اپنا گھوڑا جس کا نام سیل تھا اور جو ان کو بہت ہی محبوب تھا صدقہ کردیا نبی کریم ﷺ نے ان کو بشارت دی کہ اے زید ؓ تمہارا وہ صدقہ اللہ تعالیٰ نے قبول فرما لیا ۔ ابو ذر غفاری ؓ کا واقعہ ہے کہ ان کے ہاں ایک مہمان آگیا تو انہوں نے اپنے غلام سے کہا میری اونٹنیوں میں سے بہترین اونٹنی لا کر ذبح کر وہ ایک دبلی سی اونٹنی لے آیا حضرت ابو ذر ؓ نے فرمایا تو نے مجھ سے خیانت کی اس نے کہا یہی اونٹنی سب اونٹنیوں سے بہتر ہے چناچہ اس کو حلال کیا کسی نے حضرت ابو ذر ؓ سے کہا کہ ضرورت کا بھی خیال رکھیئے۔ آپ نے فرمایا میری ضرورت کا دن تو وہ ہوگا جس دن میں قبر میں رکھاجائوں گا ۔ حضرات صحابہ ؓ کے اقوال اس ۔۔۔ بارے میں مختلف ہیں کہ یہاں خرچ سے مراد صدقات واجبہ ہیں یا صدقات نافلہ۔ عام رائے یہ ہے کہ صدقات نافلہ مراد ہیں اس آیت کی تفسیر سے یہ بات بھی سمجھ میں آگئی ہوگی کہ ثواب تو ہر قسم کی خیرات کرنے سے ملتا ہے لیکن زیادہ ثواب پسندیدہ چیز خیرات کرنے سے ملتا ہے اب آگے یہود کی ایک اور غلط دعوے کی تکذیب فرماتے ہیں چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top