Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 91
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ مَاتُوْا وَ هُمْ كُفَّارٌ فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْ اَحَدِهِمْ مِّلْءُ الْاَرْضِ ذَهَبًا وَّ لَوِ افْتَدٰى بِهٖ١ؕ اُولٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ وَّ مَا لَهُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ۠   ۧ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ كَفَرُوْا : کفر کیا وَمَاتُوْا : اور وہ مرگئے وَھُمْ : اور وہ كُفَّارٌ : حالتِ کفر فَلَنْ يُّقْبَلَ : تو ہرگز نہ قبول کیا جائے گا مِنْ : سے اَحَدِ : کوئی ھِمْ : ان مِّلْءُ : بھرا ہوا الْاَرْضِ : زمین ذَھَبًا : سونا وَّلَوِ : اگرچہ افْتَدٰى : بدلہ دے بِهٖ : اس کو اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ لَھُمْ : ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک وَّمَا : اور نہیں لَھُمْ : ان کے لیے مِّنْ : کوئی نّٰصِرِيْنَ : مددگار
یقین رکھو جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور کفر ہی کی حالت میں مر بھی گئے تو ایسے شخص سے پوری زمین بھر کے سونا بھی نہ قبول کیا جائے گا اگرچہ وہ زمین بھر کر سونا اپنے فدیہ میں دینا بھی چاہے یہی لوگ ہیں جن کے لئے درد ناک عذاب ہے اور ان کا کوئی مدد گار نہ ہوگا2
2۔ بلاشبہ جن لوگوں نے حق کو تسلیم کرنے اور ماننے کے بعد کفر کا رویہ اختیار کیا پھر کفر ہی میں بڑھتے رہے اور کفر میں زیادہ ہوتے چلے گئے تو ایسے لوگوں کی توبہ ہرگز قبول نہ ہوگی اور یہ لوگ پرلے درجے کے گمراہ ہیں جن لوگوں نے کفر کی روش اختیار کی اور وہ کفر ہی کی حالت میں مر بھی گئے تو یقین جانو کہ ان لوگوں میں سے کسی کا زمین بھر کر سونا بھی قبول نہ کیا جائے گا اگرچہ وہ اپنے فدیہ میں اس قدر سونا دینا بھی چاہے اور ان لوگوں کو درد ناک عذاب ہوگا اور ان کا کوئی حامی و مدد گار نہ ہوگا۔ ( تیسیر) ان لوگوں سے مراد وہی بارہ مرتدین ہیں جن میں سے شاید حارث نے تو پھر نادم ہو کر اسلام قبول کرلیا تھا اور صحیح طور پر اپنی اصلاح کرلی تھی اور دین کی خدمت میں مشغول ہوگئے تھے باقی لوگ مرتدہی رہے اور کفر میں سخت ہوتے چلے گئے۔ اس آیت میں ان کی حرماں نصیبی اور گمراہی کا ذکر ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان لوگوں سے مراد یہود ہوں کہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لائے پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ کفر کیا پھر کفر میں اور بڑھے اور نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ پر بھی ایمان لانے سے انکار کردیا اور ان کی نبوت کے ساتھ کافرانہ برتائو کیا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد یہود و نصاریٰ دونوں ہوں اور مراد ان کے ایمان سے یہ ہو کہ وہ اپنی اپنی کتابوں میں اسلام کی حقانیت اور نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کی نبوت کا حال پڑھ کر یہ تسلیم کرتے تھے کہ یہ کتاب اور یہ نبی وہی ہے جس کی اطلاح ہم کو دی گئی تھی لیکن اس بات کو ماننے اور تسلیم کرنے کے باوجود پھر کفر کرتے تھے اور کفر میں بڑھتے چلے جاتے تھے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد منافقین ہوں جو ظاہر میں اسلام کا اظہار کرتے تھے مگر باطن میں اسلام دشمنی ان کا شیوہ تھا اور یہ اسلام کے لئے کھلے کافروں سے زیادہ ضرر رساں تھے۔ مجاہد کا قول ہے کہ اس سے تمام کافر مراد ہیں کیونکہ ہر کافر خدا کے خالق ہونے کو مانتا ہے لیکن اس کے نازل کردہ دین کے خلاف رہتے ہیں اور اسلام کی مخالفت میں بڑھتے چلے جاتے ہیں ہم نے ترجمہ میں اور تیسیر میں ان سب احتمالات کی رعایت کو محلوظ رکھا ہے۔ لن تقبل توبتھم مراد یا تو مرتے وقت کی توبہ ہے کہ تمام عمر کفر کرتے رہے اور جب موت کے فرشتے سامنے آئے تو توبہ کرنے لگے یا عذاب سر پر آگیا اور عذاب نے گھیر لیا تو توبہ کی سوجھی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس توبہ سے وہ توبہ مراد ہو جو ظاہر میں مسلمانوں کو مطمئن کرنے کی غرض سے کی جائے جیسا کہ منافق کیا کرتے تھے دل سے گناہ کے ترک کرنے کا ارادہ نہ ہو۔ محض رسمی توبہ ہو اور یا وہ توبہ مراد ہے جو کفر سے تو نہ ہو باقی دوسرے گناہوں سے جس کو کافر بھی برا سمجھتے ہیں ۔ ان اعمال سے توبہ کرلی جائے ۔ مثلاً کفر پر اور اسلام دشمنی پر قائم رہیں اور جھوٹ سے یا چوری اور جوئے سے توبہ کرلیں تو یہ توبہ بیکار ہے اور مطلب بھی ہوسکتا ہے اور ایسے گمراہ اور شرارت پسند لوگوں کو توبہ کی توفیق ہی نصیب نہ ہو اور یہ محروم القسمت ہمیشہ توبہ سے محروم رہیں ۔ ( واللہ اعلم) دوسری آیت میں ان کافروں کا ذکر ہے جو آخر وقت تک کفر پر اڑے رہے اور بد قسمتوں کو موت بھی کفر ہی پر آگئی ۔ ان کے متعلق یہ شبہ ہوسکتا تھا کہ انہوں نے زندگی میں کفر سے توبہ کی نہیں لیکن شاید وہاں کچھ جرمانے دے کر اور فدیہ بھر کر نجات حاصل کرلیں۔ دوسری آیت میں کفرپر مرنے والوں کا انجام اور شبہ مذکور کا جواب ہے کہ اول تو وہاں کسی کے پاس مال ہی نہ ہوگا اور اگر فرض کرو کہ وہاں کسی کو مال میسر بھی آجائے اور وہ پوری زمین بھر کر سونا اپنے فدیہ میں خود بخود دینا بھی چاہے تو بھی قبول نہیں کیا جائے گا اور جو نہ دے تو اس کا تو ذکر ہی کیا ہے اور ہم نے جو خود بخود کہا وہ اس لئے کہ اگر حاکم کے جرمانہ کئے بغیر کوئی شخص ایک معقول رقم دینے پر تیار ہوجائے تو زیادہ نفع کی امید ہوتی ہے ۔ بخلاف اس کے کہ حاکم کی طرف سے کوئی جرمانہ کر کے اس کا مطالبہ کیا جائے مگر یہاں یہ حالت ہے کہ مجرم محود اپنی طرف سے زمین بھر کر سونا دے رہا ہے اور وہ بھی قبول نہیں کیا جاتا اور یہ جو ہم نے کہا ، اگر مجرم کو مال میسر آجائے یہ اس بناء پر کہا کہ چھٹے پارے میں لو ان لھم ما فی الارض جمعیا فرمایا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک فرض صورت اختیار کی ہے ورنہ ظاہر ہے کہ وہاں مجرم کے پاس مال کہاں ہوگا چونکہ اس آیت میں قیامت کا ذکر نہیں ہے اس لئے یہاں یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ ایسے کافر جو مرتے دم تک کافر ہی رہے ان کا کوئی صدقہ قبول نہیں خوا ہ وہ اپنی زندگی میں زمین بھر کر سونا بھی خیرات کریں تو ان کی اس کافرانہ روش کے باعث مقبول نہیں کیونکہ جب تک کافر ایمان نہ لائے اس کا کوئی اچھا عمل قبول نہیں ہوتا اور جب سونے کی بھری ہوئی زمین بھی ناقابل قبول ہے تو ظاہر ہے کہ اس سے کم صدقہ یا خیرات کیا قبول ہوگا اور اگر آیت کو قیامت ہی پر محمول کیا جائے تب بھی یہ سمجھ لینا چاہئے کہ سونے سے بھری ہوئی زمین بھی ناقابل قبول ہوگی تو جو اس سے کم دے یا بالکل نہ دے اسکا تو کہنا ہی کیا ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) نے اوپر کی آیت میں ضالون پر حاشیہ لکھا ہے وہ فرماتے ہیں یعنی یہود پہلے اقرار کرتے تھے کہ یہ نبی حق ہے جب ان سے مقابلہ ہوا تو منکر ہوگئے اور بڑھتے گئے انکار میں یعنی لڑائی کا مستعد ہوگئے ان کی توبہ ہرگز قبول نہ ہوگی یعنی ان کو توبہ کرنا ہی نصیب نہ ہوگا کہ قبول ہو ۔ ( موضح القرآن ) حدیث میں آتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت میں اس شخص سے فرمائے گا جس کو سب سے کم عذاب ہو رہا ہوگا بھلا یہ تو بتا کہ اگر تجھ کو تمام روئے زمین کی دولت میسر ہو تو کیا تو اپنے فدیہ میں دے کر اس عذاب سے نجات حاصل کرلے ۔ وہ عرض کرے گا بیشک اگر میرے پاس اتنی دولت ہو اور وہ دینے سے میں عذاب سے بچ جائوں تو ضرور دے دوں ۔ ارشاد ہوگا میں نے تو تجھ سے جب تو آدم کی پشت میں تھا اس سے بہت کم اور ہلکی چیز کا مطالبہ کیا تھام اور وہ یہ کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کیجئو ، لیکن تو اتنی ہلکی بات کو بھی ماننے پر آمادہ نہ ہوا اور آج شام دنیا کی دولت دینے کو تیار ہے۔ اب آگے مال خرچ کرنے کا نفع بتاتے ہیں کہ مال کا خرچ کرنا مفید اور نافع ہوسکتا ہے لیکن ایمان کی شرط ہے اگر ایمان لانے کے بعد اچھی عمدہ اور محبوب چیز میں سے خرچ کرو گے تو نفع ہوگا اور بہت بڑی بھلائی کے مالک ہو گے۔ بخلاف کافروں کے جن کا ذکر اوپر ہوچکا ہے کہ وہ چاہے کچھ بھی خیرات کردیں اس پر آخرت میں کوئی خاص نفع مرتب نہ ہوگا ، چناچہ ارشاد فرماتے ہیں۔ ( تسہیل)
Top