Kashf-ur-Rahman - Aal-i-Imraan : 94
فَمَنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَؐ
فَمَنِ : پھر جو افْتَرٰى : جھوٹ باندھے عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ الْكَذِبَ : جھوٹ مِنْ بَعْدِ : سے۔ بعد ذٰلِكَ : اس فَاُولٰٓئِكَ : تو وہی لوگ ھُمُ : وہ الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
پھر جو کوئی اس صاف مطالبہ کے بعد اللہ پر جھوٹی افترا پردازی کرے تو یہی لوگ سخت ناانصاف ہیں2
2۔ جملہ اشیاء خوردنی جو مابہ النزاع ہیں یہ سب نزول تورات سے قبل ہی بنی اسرائیل پر حلال تھیں ۔ بجزان چند چیزوں کے جو حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے خود اپنی ذات پر حرام کرلی تھیں یعنی اونٹ کے گوشت اور اونٹ کے دودہ کے علاوہ باقی جو چیزیں کھانے پینے کی عام طور سے حلال ہیں وہ سب بنی اسرائیل پر بھی نزول تورات سے قبل حلال تھیں ۔ اے پیغمبر ﷺ ! آپ ان سے یہ مطلب کیجئے کہ تورا ت لائو اور اس کو لا کر پڑھو اگر تم سچے اور راست باز ہوتا کہ ہمارا تمہارا جھگڑا صاف ہوجائے پھر اگر اب کوئی اس صحیح مطالبے اور حقیقی الزام قائم ہوجانے کے بعد بھی اللہ عتالیٰ پر جھوٹ بات کی تہمت لگائے اور جھوٹی افترا پر دای کرے تو ایسے لوگ ظالم اور بڑے بےانصاف ہیں۔ ( تیسیر) یہود کے ظلم اور عدوان کی وجہ سے حضرت حق تعالیٰ نے جو بعض حلال چیزیں ان پر حرام فرمائی تھیں جب قرآن کریم نے ان کی حرمت اور حرمت کے سبب کا انکشاف کیا تو یہ لوگ بڑے ناراض ہوئے اور انہوں نے کہنا شروع کیا یہ ہم پر غلط الزام ہے کیونکہ یہ چیزیں تو حضرت ابراہیم بلکہ حضرت نوح کے زمانے سے حرام چلی آتی ہیں بلکہ تم مسلمان لوگ جو اپنے کو ملت ابراہیم کا پیرو بتاتے ہو تو ملت ابراہیم کے پیرو نہیں ہو بلکہ اس کی ملت کے صحیح پیرو ہیں اور اس کے زمانے میں جو چیزیں حرام تھیں ہم ان کو حرام سمجھتے ہیں اور تم ان چیزوں کو حلال سمجھ کر کھاتے ہو، لہٰذا تم ملت ابراہیمی کے پیرو نہیں ہو ۔ اس جھگڑے کا اس آیت میں جواب دیا گیا ہے یہاں جن پر چیزوں کی حلت و حرمت مابہ النزاع ہے وہ وہی ہیں جو آٹھویں پارے میں مذکور ہیں ، یعنی ناخن والے جانور اور جانوروں کی چربی کا بعض حصہ وغیرہ۔ آیت میں جو جواب دیا گیا اور یہود پر جو حجت قائم کی گئی اس کا خلاصہ یہ ہے۔ 1۔ جو چیزیں ہمارے تمہارے درمیان مابہ النزاع ہیں مثلاً بعض جانور اور جانوروں کی چربی کا بعض حصہ وغیرہ تم کہتے ہو یہ حضرت نوح اور حضرت ابراہیم کے زمانے سے حرام چلی آتی ہیں اور ہم کہتے ہیں کہ یہ چیزیں تورات سے قبل کسی زمانے میں بھی بنی اسرائیل پر حرام نہیں تھیں البتہ تورات جب نازل ہوئی اس وقت یہ چیزیں بنی اسرائیل کی سرکشی اور ظلم کی وجہ سے حرام ہوئیں ۔ مطلب یہ کہ یہاں ان ہی چیزوں کی حلت و حرمت کا فیصلہ ہے جن میں یہود اور اہل اسلام کے درمیان گفتگو ہو رہی ہے۔ کل الطعام سے مراد یہ ہے کہ وہ طیبات اور حلال چیزیں جو عام طور سے کھائی جاتی ہیں یعنی مطوعات اور طببات اور وہ چیزیں مراد نہیں جو حرام ہیں ، مثلاً سور کا گوشت ، خون ، مردار جانور وغیرہ اسی لئے ہم نے تیسیر میں اشیائے خوردنی ان کا ترجمہ کیا ہے۔ 2۔ البتہ اشیائے خوردنی میں سے جو دو یا ایک چیز بنی اسرائیل پر قبل از نزول تورات حرام تھیں وہ اونٹ کا گوشت تھا یا گوشت اور دودہ دونوں تھے ۔ اوسان کی حرمت کی ایک خاص وجہ تھی اور وہ وجہ کوئی سرکشی یا ظلم نہ تھا بلکہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کسی خاص تکلیف وہ مرض میں مبتلا ہوگئے تھے وہ عرق النساء ہو یا اور اسی قسم کا کوئی مرض ہو ان کو اطباء نے مشورہ دیا کہ آپ اونٹ کا گوشت اور دودھ استعمال نہ کیا کریں انہوں نے ان دونوں چیزوں کو اپنے اوپر حرام کرلیا اور ان کی وجہ سے ان کی اولاد نے بھی اس کا استعمال ترک کردیا اور یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے خود ہی یہ منت مانی ہو کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے مرض سے شفا دے گا تو میں اپنی محبوب غذا یعنی اونٹ کا گوشت کھانا چھوڑ دوں گا ۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو مرض سے شفا دے دی تو انہوں نے اپنی منت اور نذر کی بنا پر اونٹ کا گوشت کھانا اپنے اوپر حرام کرلیا اور اس حرمت کا سلسلہ حضرت یعقوب کی اولاد میں بھی جاری رہا ۔ 3۔ غالباً ان کی شریعت میں ایسا کرنا روا ہوگا کہ کسی حلال چیز کو نذر کے طور پر حرام کرلیا جائے۔ بہر حال انہوں نے جو اونٹ کا گوشت اور دودھ حرام کرلیا تھا وہ حرمت انکی اولاد میں جاری رہی ۔ ان کی اولاد میں یہ حرمت خواہ حکم الٰہی سے جاری رہی جیسا کہ بعض نے کہا ہے خواہ محض حضرت یعقوب کی اتباع میں اولاد نے ایسا کیا ہو، اگرچہ یہ طریقہ شریعت محمدیہ میں روا نہیں ہے بلکہ یہاں کسی حلال کو حرام کرنا یمین ہے اور اس یمین کو توڑ کر کفارہ ادا کرنا ضروری ہے۔ 4۔ بس حضرت یعقوب کی ان حرا م کردہ دو چیزوں کے علاوہ اور کوئی چیز تورات کے نازل ہونے کے وقت تک حرام نہ تھی اور چونکہ اس عرصہ میں بنی اسرائیل کی سرکشی اور ظلم حد سے بڑھ چکا تھا اس لئے ان کو سزا دینے کی غرض سے بعض حلال چیزیں ان پر حرام کردی گئیں ۔ یہ چیزیں نہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت ہیں حرام تھیں اور نہ حضرت نوح کے زمانے میں حرام ہوئیں اور نہ ہم جو ملت ابراہیمی کے پیرو ہیں ان چیزوں کو اب حرام سمجھتے ہیں۔ 5۔ اس واقعہ سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ اس قسم کا نسخ کہ کوئی حلال حرام ہوجائے اور کوئی حرام حلال کردیا جائے پہلی شرائع میں بھی ہوتا رہا ہے اگر اس شریعت محمدیہ نے بھی پہلی شریعت کو کوئی بات منسوخ کردی تو کون سے تعجب کی بات ہے۔ 6۔ پھر حکم دیا گیا کہ ان سے تورات منگا کر پڑھو اور ان سے کہو تم اگر سچے ہو تو تورات لا کر پڑھوتا کہ صحیح حقیقت ظاہر ہوجائے اور سچ جھوٹ سے نمایاں ہوجائے لیکن یہود تورات لانے پر آمادہ نہ ہوئے۔ 7۔ پھر آخر میں فرمایا اب اگر اس مطالبے کے بعد اور اس کھلے الزام کے بعد جو تورات نہ لانے کی وجہ سے ان پر آگیا پھر بھی بدبخت یہی کہے جائے کہ یہ چیزیں ملت ابراہیمی میں حرام تھیں اور یہ بدبخت اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بات کی تہمت لگائے جائے تو بس ایسے ہی بدبخت تو ظالم اور ناانصاف ہیں۔ 8۔ آیت کے ترجمہ میں لوگوں کو بہت الجھائو ہونا ہے اس لئے ہم کو اس قدر وضاحت کی ضرورت پیش آئی اور اب ہم کو توقع ہے کہ انشاء اللہ کوئی اشکال باقی نہیں رہے گا اور نہ کوئی شبہ پیش آئے گا اور ربط آیات کے سلسلے میں بھی ایک اور بات سمجھ میں آگئی ہوگی کہ اوپر کی آیت میں محبوب چیز کے ترک کرنے کا ذکر تھا اور اس آیت میں ایک پیغمبر کی محبوب چیز کے ترک کا ذکر ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یہود کہتے ہیں کہ تم کہتے ہو ہم ابراہیم (علیہ السلام) کے دین پر ہیں اور ابراہیم کے گھرانے میں جو چیزیں حرام تھیں سو کھاتے ہو جیسے اونٹ کا گوشت اور دودھ اللہ نے فرمایا کہ جتنی چیزیں اب لوگ کھاتے ہیں سب ابراہیم (علیہ السلام) کے وقت حلال تھیں ۔ جب تک تورات نازل ہوئی تورات میں خاص بنی اسرائیل پر حرام ہوئی ہیں مگر ایک اونٹ حضرت یعقوب نے اس کے کھانے سے قسم کھائی تھی ان کی طبیعت سے ان کی اولاد نے بھی چھوڑ دیا تھا اس قسم کا سبب یہ تھا کہ ان کو ایک مرض ہوا تھا انہوں نے نذر کی ، اگر میں صحت پائوں تو جو میرب بہت عادت کی چیز ہو وہ چھوڑ دوں ان کو یہ بہت بھاتا تھا سونذر کے سبب چھوڑ دیا ۔ ( موضح القرآن) جب یہودکا دعویٰ باطل ہوگیا اور تورات لا کر نہ پڑھنے سے معلوم ہوا کہ وہ جھوٹے تھے اور مسلمان جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ حق ہے اور وہی ملت ابراہیمی ہے اس لئے آگے ملت ابراہیمی اور اس ملت کی بعض چیزوں کا ذکر فرماتے ہیں چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top