Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 110
وَ مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ یَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا
وَمَنْ : اور جو يَّعْمَلْ : کام کرے سُوْٓءًا : برا کام اَوْ يَظْلِمْ : یا ظلم کرے نَفْسَهٗ : اپنی جان ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ : پھر بخشش چاہے اللّٰهَ : اللہ يَجِدِ : وہ پائے گا اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
اور جو شخص کوئی بدی کرے یا اپنی ہی جان کو نقصان پہنچائے پھر اللہ تعالیٰ سے معافی کا طلب گار ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کو بڑا معاف کرنیوالا اور بڑی مہربانی کرنے والا پائے گا۔3
3 جو شخص بدی اور برائی کرے یا صرف اپنی ہی جان کو نقصان پہنچائے اور فقط اپنے ہی پر ظلم کرے پھر یہ شخص شرعی طریقہ پر اللہ تعالیٰکی جناب میں توبہ کرے اور معافی چاہے تو وہ اللہ تعالیٰ کو بڑا معاف کرنے والا اور بڑی مہربانی کرنے والا پائے گا۔ (تیسیر) سوء سے مراد وہ گناہ ہیں جو متعدی ہوں اور جن سے دوسروں کو بھی نقصان پہنچتا ہو۔ یظلم نفسہ سے مراد وہ گناہ ہیں جو غیر متعدی ہوں اور سا میں صرف حقوق اللہ کا معاملہ ہو حقوق العباد کا دخل نہ ہو شرعی طریقہ کا مطلب یہ ہے کہ متعدی گناہ میں توبہ کے ساتھ صاحب حق کا حق بھی ادا کرے یا اس سے معاف کرائے اور اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں گناہ فرمایا کبیرہ کو اور اپنا برا فرمایا صغیرہ کو یہ ان لوگوں کو حکم ہے کہ توبہ کریں تو قبول ہے ۔ (موضح القرآن) بعض حضرات نے ظلم سے شرک مراد لیا ہے اور سوء سے وہ گناہ مراد لئے ہیں جو شرک کے علاوہ ہوں بعض نے صغیرہ کبیرہ سے تفسیر کیا جیسے حضرت شاہ صاحب نے فرمایا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں جس نے سورة نساء کی یہ دو آیتیں پڑھیں ایک تو یہی من یعمل سوائور دوسری وہ آیت جو اوپر گذر چکی ولوانھم اذا ظلموا اور ان دونوں آیتوں کو پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کی تو اللہ تعالیٰ اس کو بخش دیتا ہے۔ بعض اہل علم نے اس آیت کو سب سے زیادہ امید دلانے والی آیت کہا ہے حضرت ابوبکر صدیق نے مرفوعاً روایت کی ہے کہ کسی مسلمان سے کوئی گناہ ہوجائے پھر وہ وضو کر کے دو رکعتیں پڑھے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے تو اللہ تعالیٰ اس کا گناہ بخش دیتا ہے پھر آپ نے دو آیتیں پڑھیں۔ ایک تو ومن یعمل سوء اور ایک والذین اذا فعلوا فآخشۃ ابن مرادیہ نے حضرت علی کے واسطے سے اسی روایت کے قریب قریب ایک روایت نقل کی ہے اس میں یوں ہے کہ حضرت علی فرماتے ہیں میں نے ابوبکر سے سنا ہے۔ بہرحال ! اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے علم اور اپنے عفو و کرم کا اعلان فرمایا ہے اور یہ آیت مسلمانوں کے لئے بہت بڑی بشارت ہے اور اس امر کی طرفاشارہ ہے کہ اس چوری کے واقعہ میں جن لوگوں سے گناہوں کا ارتکاب ہوا ہے ان کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی جناب میں استغفار کریں اور ہر گناہ گار کو اس کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ گناہ ایسی چیز ہے جو اس کا مرتکب ہوتا ہے تو اسی کو اس کی سزا ملتی ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top