Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 74
فَلْیُقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ الَّذِیْنَ یَشْرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا بِالْاٰخِرَةِ١ؕ وَ مَنْ یُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَیُقْتَلْ اَوْ یَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِیْهِ اَجْرًا عَظِیْمًا
فَلْيُقَاتِلْ : سو چاہیے کہ لڑیں فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يَشْرُوْنَ : بیچتے ہیں الْحَيٰوةَ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا بِالْاٰخِرَةِ : آخرت کے بدلے وَ : اور مَنْ : جو يُّقَاتِلْ : لڑے فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ فَيُقْتَلْ : پھر مارا جائے اَوْ : یا يَغْلِبْ : غالب آئے فَسَوْفَ : عنقریب نُؤْتِيْهِ : ہم اسے دیں گے اَجْرًا عَظِيْمًا : بڑا اجر
اگر ایسے لوگ جہاد سے جان چرائیں تو ان مخلص مسلمانوں کو جو دنیا کی زندگی آخرت کے عوض فروخت کرچکے ہیں یہ چاہئے کہ وہ اللہ کی راہ میں جنگ کریں اور جو کوئی شخص بھی اللہ کی راہ میں جہاد کرے گا پھر خواہ وہ قتل ہوجائے یا غلبہ حاصل کرے بہرحال ہم اس کو اجر عظیم عطا فرمائیں گے۔4
4 لہٰذا اگر اس قسم کے منافق اور تاخیر کرنے والے جہاد سے جان چراتے ہیں تو وہ مخلص مسلمان جنہوں نے دنیوی زندگی کے مقابلہ میں آخرت کو اختیار کر رکھا ہے اور دنیا کی زندگی کو آخرت کے عوض فروخت کئے بیٹھے ہیں ان کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کریں اور جو شخص اللہ کی راہ میں لڑے گا خواہ وہ قتل کردیا جائے یعنی مقلوب ہوجائے یا وہ غلبہ حاصل کرے اور غالب ہوجائے بہرحال ہم اس کو آخرت میں بہت بڑا اجر وثواب عطا فرمائیں گے۔ یشرون الحیوۃ الدنیا کا ترجمہ دو طرح کی اگیا ہے ایک یہ کہ دنیوی زندگی کو آخرت کے عوض فروخت کردیا ہے جیسا کہ ہم نے اختیار کیا ہے دوسرے یہ کہ جن لوگوں نے دنیوی زندگی کو آخرت کے مقابلے میں اختیار کر رکھا ہے ۔ اگر یہ معنی کئے جائیں تو آیت کے پہلے فقرے کا مطلب یہ ہوگا کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑیں جو دنیوی زندگی کو آخرت کے مقابلے میں اختیار کئے ہوئے ہیں یعنی کافروں سے جنگ کرد اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فلیقاتل کا فاعل وہی مذکور جان چرانے اولا شخص ہو اور اسی کو یہ حکم دیا گیا ہو کہ خلای باتیں بنانے سے کوئی فائدہ نہیں اگر یہ شخص واقعی فوز اور کامیابی کا خواہشمند ہے تو اس کو چاہئے کہ گھر سے نکل کر اللہ کی راہ میں کافروں اور منافقوں سے جنگ کرے پھر اللہ کی راہ میں جنگ کرتے کرتے مارا جائے گا یا غالب آجائے گا تو ہر طرح فائدہ ہی فائدہ اور اجر عظیم ملے گا اور آخرت میں بہت بڑے ثواب کا مستحق ہوگا خلاصہ یہ کہ اگر یہ شخص فوز عظیم کا خواہمشند ہے تو اس کو چاہئے اپنا قلب درست کرے اور گھر سے نکل کر میدان جہاد میں جائے اور کفار و منافقین کا مقابلہ کرے پھر دیکھے کہ اس کو فوز عظیم اور اجر عظیم کس قدر عطا ہوتا ہے۔ بہرحال ! مفسرین کے مختلف اقوال میں سے ہم نے ایک قول اختیار کرلیا ہے اور جو قول ہم نے اختیار کیا ہے۔ اس میں فلیقاتل کا فاعل الذین کو قرار دیا ہے اور یہی عام مفسرین کی رائے ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ الذین کو مفعول قرار دیا جائے اور فلیقاتل کا فاعل مخلص مسلمانوں کو قرار دیا جائے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فلیقاتل کا فاعل شخص مذکور کو قرار دیا ہے۔ (واللہ اعلم) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی مسلمانوں چاہئے زندگی دنیا پر نظر نہ رکھیں آخرت چاہیں اور سمجھیں کہ اللہ کے حکم میں ہر طرح نفع ہے۔ (موضح القرآن) اب آگے پھر اسی مضمون کو ذرا اور تفصیل کے ساتھ ذکر فرمایا ہے جہاد میں ایک مقصد تو ظاہر ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بات بلند ہوتی ہے اور اسلام کا اقتدار بڑھتا ہے یہاں ایک اور دوسری بات بھی فرمائی کہ جو کمزور مسلمان کافروں کے قبضے میں ہیں وہ بےچارے اپنی مدافعت نہیں کرسکتے ان کے لئے بھی کافروں سے لڑنا چاہئے تاکہ وہ مسلمان آزاد ہوجائیں اور اپنے مذہب پر آزادی کے ساتھ عمل کرسکیں چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top