Kashf-ur-Rahman - An-Nisaa : 86
وَ اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْهَاۤ اَوْ رُدُّوْهَا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ حَسِیْبًا
وَاِذَا : اور جب حُيِّيْتُمْ : تمہیں دعا دے بِتَحِيَّةٍ : کسی دعا (سلام) سے فَحَيُّوْا : تو تم دعا دو بِاَحْسَنَ : بہتر مِنْھَآ : اس سے اَوْ : یا رُدُّوْھَا : وہی لوٹا دو (کہدو) اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَلٰي : پر (کا) كُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز حَسِيْبًا : حساب کرنے والا
ترجمہ :۔ اور جب تم کو کوئی سلامتی کی دعا دے یعنی سلام علیک کرے تو تم اس سے بہتر الفاظ میں سلام کا جواب دو یا کم از کم انہی الفاظ کیساتھ دعا وجوپہلے شخص نے کہے تھے بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔1
1 اور جب تم کو کوئی دعا دے یعنی سلام علیکم کرے تو تم اس کے سلام سے اچھے اور بہتر الفاظ میں اس کو سلام کرو یعنی اس کے سلام کا جواب دو یا کم از کم ویسے ہی الفاظ کہہ دو اور انہی الفاظ میں اس کو جواب دے دے جو پہلے شخص نے کہے تھے، یقین جانو ! اللہ تعالیٰ ہر چیز پر محاسب اور ہر بات کا حساب لینے والا ہے۔ (تیسیر) تحیۃ اصل میں زندگی کی دعا دینے کو کہتے ہیں اہل عرب جب آپ میں ملتے تھے تو ایک دوسرے کو حیاک اللہ کہتا تھا پھر تحیتہ مطلقاً دعا میں استعمال ہونے لگا۔ یہاں اس کے معنی ملاقات کے وقت سلام علیکم کرنے کے ہیں۔ آسمانی تہذیب میں ہمیشہ ملاقات کا تحیتہ سلام رہا ہے جو قومیں آسمانی تہذیب سے محروم ہیں ان کے ہاں مختلف طریقے ہیں کفار عرب کا طریقہ ہم نے عرض کردیا۔ نصاریٰ کا سلام منہ پر ہاتھ رکھ لینا تھا یہود کا سلام انگلی اٹھا لینا تھا مجوسیوں کا سلام ذرا جھک جانا تھا لیکن اسلام نے پھر آسمانی تہذیب کو زندہ کیا اور فرمایا۔ فسلموا علی انفسکم تحیۃ من عند اللہ اس کہنے کی ضرورت نہیں کہ السلام علیکم یعنی سلامتی کی دعا کفار عرب کے حیاک اللہ سے بہت جامع ہے کیونکہ یہ دین و دنیا کی سلامتی کو شامل ہے ۔ حدیث میں سلمان فارسی سے روایت ہے کہ ایک شخص حضور ﷺ کی مجلس میں آیا اس نے کہا السلام علیک یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ نے فرمایا وعلیک السلام و رحمۃ اللہ پھر دوسرا شخص آیا اس نے کہا السلام علیک یا رسول اللہ و رحمتہ اللہ آپ ﷺ نے جواب دیا وعلیک السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ پھر ایک تیسرا شخص آیا اس نے کہا السلام علیک یا رسول اللہ و رحمۃ اللہ وبرکاتہ، آپ ﷺ نے فرمایا وعلیک اس نے کہا یا رسول اللہ ﷺ مجھ سے پہلے آنے والوں کے جواب میں آپ نے زیادہ جواب دیا اور بڑھا کر جواب عنایت کیا مگر مجھ کو صرف وعلیک فرمایا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تو نے ہمارے لئے کچھ چھوڑا ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے بہتر جواب دو یا ویسا ہی جواب دے دو ہم نے ویسا ہی جواب دے دیا۔ عمر بن حصین کی روایت میں آیا ہے کہ ایک شخص حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور السلام علیکم کہہ کر بیٹھ گیا حضور ﷺ نے فرمایا دس ہیں پھر دوسرا آیا اس نے کہا السلام علیکم و رحمتہ اللہ اور بیٹھ گیا آپ ﷺ نے فرمایا بیس ہیں پھر تیسرا آیا اور وہ السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ کہہ کر بیٹھ گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا تیس ہیں۔ یعنی ا لفاظ کی زیادتی کے ساتھ نیکیاں زیادہ ہوتی گئیں سلام کے آداب کی تفصیل توفقہ کی کتابوں سے معلوم ہوسکتی ہے یہاں چند باتیں یاد رکھنی چاہئیں۔ -1 سلام کا جواب دینا واجب علی الکفار یہ ہے اگر حاضرین میں سے ایک شخص نے بھی جواب دیدیا تو سب سبکدوش ہوگئے اور اگر کسی نے بھی جواب نہیں دیا تو سب واجب کے تارک ہوئے۔ -2 جو سلام شرعی آداب کا لحاظ رکھ کر کیا جائے اسی کا جواب دینا واجب ہوگا مثلاً کوئی بول و براز میں مشغول ہو یا نماز پڑھتا ہو یا قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہو یا خطبہ سن رہا ہو وغیرہ ایسی حالت میں کوئی سلام کرے تو اس کا جواب دینا واجب نہیں بلکہ ایسے مواقع پر سلام کرنا ہی خود مگر وہ ہے ۔ -3 سلام کے جواب میں وعلیکم السلا کہنا واجب ہے باقی سلام کرنے والے سے بہتر کلمات کہنا یا انہی کو لوٹاکر کہہ دینا یہ باتیں اختیار میں ہیں یعنی فقط جواب تو واجب ہے باقی زیادہ جواب دینا جواب دینا یا کم دینا یا انہی کلمات کو لوٹا دینا ان سب کا اختیار ہے۔ -4 احادیث میں جو کلمات مروی ہیں وہ سلام کے ساتھ و رحمتہ اللہ وبرکاتہ ہیں ان سے زیادہ اور الفاظ ثابت نہیں۔ -5 کسی کافر کو بلا کسی خاص ضرورت کے ابتدائً سلام نہیں کرنا چاہئے البتہ کوئی ضرورت ہو تو سلام میں ابتداء کی جاسکتی ہے۔ -6 کافر کے سلام کا جواب بھی واجب نہیں اگرچہ جواب دینا جائز ہے۔ -7 فقہاء نے کافر کو دنیوی اعتبار سے دعا دینا یا اس کو اسلام کی دعا دینا جائز رکھا ہے۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ نے ایک یہودی کو جو حضور ﷺ کے لئے ایندھن بلایا تھا دعا دی تھی اور فرمایا تھا اللھم حجلہ چناچہ ستر سال کی عمر تک اس یہودی کے بال سیاہ ہی رہے۔ -8 جس طرح بلا ضرورت کافر کو ابتداء سلام نہ کرنا چاہئے اسی طرح اہل بدعت کو بھی ابتداء سلام نہیں کرنا چاہئے۔ -9 اگر سلام کرنے میں کسی کافر نے شرارت آمیز الفاظ استعمال کئے ہوں تو اس کو صرف وعلیکم کہہ دینا چاہئے جیسا کہ بعض یہود کا قاعدہ تھا کہ وہ السلام علیکم کو دبا کر السام علیک کہا کرتے تھے اور حضور ﷺ بھی اس کے جواب میں وعلیکم فرمادیا کرتے تھے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں مثلاً کوئی کہے السلام علیکم تو واجب ہے تو اس کا جواب اگر برابر چاہے تو وعلیکم السلام اور اگر زیادہ ثواب چاہے تو رحمتہ اللہ بھی اور اگر اس نے یوں کہا تو آپ کہے وبرکاتہ (موضح القرآن) ہم تسہیل میں ابھی عرض کرچکے ہیں کہ نفس جواب واجب ہے اور کلمات کی کمی بیشی کا اختیار ہے۔ ان اللہ علی کل شئی حسیبا کا یہ مطلب ہے کہ عمل پر وہ محاسبہ کرنے والا ہے اور اعمال کے موافق سلوک کرنے والا ہے مگر یہ کہ جس پر اس کی مہربانی ہوجائے تو وہ معاملہ دوسرا ہے۔ آگے توحید کا ذکر ہے جس میں رسالت بھی شامل ہے اور قیامت کے وقوع کا اعلان ہے۔ (تسہیل)
Top