Kashf-ur-Rahman - Al-Maaida : 47
وَ لْیَحْكُمْ اَهْلُ الْاِنْجِیْلِ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فِیْهِ١ؕ وَ مَنْ لَّمْ یَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ
وَلْيَحْكُمْ : اور فیصلہ کریں اَهْلُ الْاِنْجِيْلِ : انجیل والے بِمَآ : اس کے ساتھ جو اَنْزَلَ : نازل کیا اللّٰهُ : اللہ فِيْهِ : اس میں وَمَنْ : اور جو لَّمْ يَحْكُمْ : فیصلہ نہیں کرتا بِمَآ : اس کے مطابق جو اَنْزَلَ : نازل کیا اللّٰهُ : اللہ فَاُولٰٓئِكَ : تو یہی لوگ هُمُ : وہ الْفٰسِقُوْنَ : فاسق (نافرمان)
اور اہل انجیل کو چاہئے کہ جو کچھ اللہ نے انجیل میں نازل کیا ہے اس کے مطابق حکم کیا کریں اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ تعلیمات کے مطابق حکم نہ کریں تو ایسے ہی لوگ ہیں بےحکمی کرنے والے3
3 اور ہم نے اہل انجیل کو یہ حکم دیا تھا کہ اہل انجیل کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ جب کوئی حکم کیا کریں تو اللہ تعالیٰ نے جو کچھ انجیل میں نازل فرمایا ہے اس کے موافق حکم دیا کریں اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے مطابق حکم نہ کریں تو ایسے ہی لوگ نافرمان اور بےحکمی کرنے والے ہیں۔ جس طرح اوپر یہود کو کہا گیا تھا کہ کسی فیصلے کے وقت یا کوئی حکم دیتے وقت اس بات کا لازمی طور پر لحاظ رکھو کہ تمہارا فیصلہ اس کتاب کے خلاف نہ ہو جو تمہارے زمانے میں واجب الاتباع ہو اسی طرح اس آیت میں نصاریٰ کو بھی بتایا گیا ہے کیونکہ اس قسم کی کمزوریوں میں نصاریٰ بھی مبتلا تھے کہ حکم بنتے وقت تھوڑی بہت خیانت کر گذرتے تھے جو لوگ احکام الٰہی کے خلاف فیصلے کرتے ہیں ان کو کافر ظالم، فاسق کہا گیا ہے اگر آسمانی کتاب کے حکم کے خلاف فیصلہ کرنے والے نے توہین کی غرض سے فیصلہ کیا ہو تو ان سب الفاظ کے معنی حقیقی کفر ہوں گے ورنہ پھر فسق وغیرہ ہوں گے تو رات و انجیل کا ذکر کرنے کے بعد قرآن شریف کا ذکر فرماتے ہیں اور چونکہ اہل کتاب کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ نبی کریم ﷺ بھی ہمارے فیصلوں سے اتفاق کیا کریں یا جو فیصلہ ہم ان کے سپرد کریں اس کو ہماری مرضی کے موافق فیصلہ کیا کریں اس کا بھی آگے کی آیت میں ذکر ہے اور اپنے نبی کے متعلق ایک ضابطہ مقرر کردیا گیا ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ (تسہیل)
Top