Kashf-ur-Rahman - Al-Qalam : 34
اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ
اِنَّ لِلْمُتَّقِيْنَ : بیشک متقی لوگوں کے لیے عِنْدَ رَبِّهِمْ : ان کے رب کے نزدیک جَنّٰتِ : باغات ہیں النَّعِيْمِ : نعمتوں والے
البتہ پرہیزگاروں کے لئے ان کے پروردگار کے ہاں نعمتوں کے باغ ہیں۔
(34) البتہ ڈرنے والوں اور پرہیزگاروں کے لئے ان کے پروردگار کے پاس نعمتوں کے باغ ہیں۔ اوپر کی آیتوں میں باغ ضروان کے مالکوں کا ذکر تھا اور اہل مکہ کے منکروں کی آزمائش اور امتحان کی طرف اشارہ تھا اب ان لوگوں کا ذکر فرمایا جو کفر سے اور دوسرے گناہوں سے پرہیز کرتے ہیں ان کو عالم آخرت میں جو نعمتیں اور آرام و آسائش کے باغ ملنے والے ہیں ان کا ذکر کیا کیا چون کہ کفار مکہ عام طور سے یہ خیال کیا کرتے تھے کہ اول تو قیامت اور میدان حشر کا قیام یہ سب ڈھونگ ہے ان میں سے کوئی بات بھی ہونے والی نہیں اور اگر بالفرض قیامت ہوئی بھی اور وہ دوسرا عالم آیا بھی تو ہمارے وہاں بھی حسنی اور جنت ہوگی ہم مسلمانوں سے اچھی حالت میں ہوں گے جس طرح ہم دنیوی عیش و عشرت آرام میں مسلمانوں سے بڑھے ہوئے ہیں اسی طرح وہاں بھی ان سے زیادہ آرام میں رہیں گے اور اگر زیادہ نہ بھی ہوئے تو برابر رہنے میں تو کوئی شک ہی نہیں۔ اس اعتراض کا جواب قرآن نے اور بھی کئی جگہ دیا ہے سورة ص ، سورة سجدہ میں بھی مساوات کی نفی فرمائی ہے یہاں دوسرے عنوان سے کفار کے اس شبہے اور اعتراض کا جواب فرماتے ہیں۔
Top