Kashf-ur-Rahman - Al-Qalam : 33
كَذٰلِكَ الْعَذَابُ١ؕ وَ لَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُ١ۘ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ۠   ۧ
كَذٰلِكَ : اسی طرح ہوتا ہے۔ ایسا ہوتا ہے الْعَذَابُ : عذاب وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ : اور البتہ عذاب آخرت کا اَكْبَرُ : زیادہ بڑا ہے لَوْ كَانُوْا : کاش وہ ہوتے يَعْلَمُوْنَ : وہ جانتے
یوں ہی عذاب آیا کرتا ہے اور آخرت کا عذاب یقینا دنیا کے عذاب سے کہیں بڑھ کر ہے کاش یہ کافر سمجھتے ہوتے۔
(33) یوں عذاب آیا کرتا ہے اور آخرت کا عذاب یقینا دنیا کے عذاب سے کہیں بڑھ کر ہے کاش یہ کافر سمجھتے ہوتے اور کاش یہ لوگ جانتے ہوتے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ دنیا کا عذاب تھا اس کو کوئی نہیں ٹال سکا اور آخرت کا عذاب تو اس سے کہیں بڑا ہے اور وہاں کی آفت تو سب سے بڑی ہے کاش یہ لوگ اتنی بات کو جان لیتے۔ کفار مکہ کی حالت بھی یہی ہے کہ یہ اپنی آسودگی اور دولت کے غرور میں اندھے ہورہے ہیں اور نبی آخرالزمان ﷺ کی مخالفت پر آمادہ ہیں ان کو نہ قحط کی خبر ہے نہ جنگ بدر کی ، یہ سب عذاب ان پر آنے والے ہیں اور جب آخری عذاب ان کی تباہی کا آئے گا اور مکہ فتح ہوجائے گا تب باغ والوں کی طرح آنکھیں کھلیں گی اس وقت توبہ کریں گے اور اسلام میں داخل ہوں گے ابھی ان کو ان باغ والوں کی طرح ہم آزما رہے ہیں جب سرکشی حد سے تجاوز ہوجائے گی اور عذاب آجائے گا اس وقت ان کا سب غرور ڈھل جائے گا اور ان کے سب کس بل نکل جائیں گے۔ آگے اللہ تعالیٰ پرہیزگار اور اہل تقویٰ کا ذکر فرماتا ہے اور کفار مکہ کے بعض بےدلیل اعتراضات کا جواب دیتا ہے۔ آخر میں حضرت یونس (علیہ السلام) کا ذکر فرما کر نبی کریم ﷺ کو صبر کی تاکید فرماتا ہے بیچ میں حشر کی بعض باتوں کا ذکر ہے اور اس امر کا اظہار ہے کہ میں ظالموں کو مہلت دیتا رہتا ہوں لیکن جب گرفت کرتا ہوں تو میری گرفت سخت ہوتی ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔
Top