Kashf-ur-Rahman - Al-Qalam : 43
خَاشِعَةً اَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ١ؕ وَ قَدْ كَانُوْا یُدْعَوْنَ اِلَى السُّجُوْدِ وَ هُمْ سٰلِمُوْنَ
خَاشِعَةً : نیچی ہوں گی اَبْصَارُهُمْ : ان کی نگاہیں تَرْهَقُهُمْ : چھا رہی ہوگی ان پر ذِلَّةٌ : ذلت وَقَدْ كَانُوْا : اور تحقیق تھے وہ يُدْعَوْنَ : بلائے جاتے اِلَى السُّجُوْدِ : سجدوں کی طرف وَهُمْ سٰلِمُوْنَ : اور وہ صحیح سلامت تھے
ان کی آنکھیں نیچی ہورہی ہوں گی اور ان پر ذلت چھائی ہوئی ہوگی اس رسوائی کا سبب یہ ہے کہ ان کو دنیا میں سجدے کے لئے بلایا جاتا تھا حالانکہ اس وقت یہ توانا اور تندرست تھے۔
(43) ان کی آنکھیں نیچی ہورہی ہوں گی اور ان پر ذلت چھارہی ہوگی اس رسوائی کی وجہ یہ ہے کہ ان کو دنیا میں سجے کے لئے بلایا جاتا تھا حالانکہ اس وقت یہ توانا اور تندرست تھے۔ ساق پنڈلی کو کہتے ہیں ، حدیث میں آتا ہے۔ یکشف ربنا من ساقہ فیسجد کل مومن ومومنۃ ویبقی من کا یسجد فی الدنیا ریاء وسمعۃ، یعنی ہمارا پروردگار اپنی پنڈلی کو نمایاں کرے گا پھر ہر مومن مرد اور مومن عورت سجدہ میں گرپڑیں گے اور جو شخص دنیا میں ریاکاری اور دکھاوا کا سجدہ کیا کرتا تھا وہ باقی رہ جائے گا۔ مطلب یہ ہے کہ جب منافق اور ریاکار سجدہ نہ کرسکیں گے تو کافر کس طرح کرسکیں گے ان کی کمر کی ہڈی سیدھی کردی جائے گی اور یہ جھک نہ سکیں گے کشف ساق کے وقت سجدے کی دعوت تکلیف یا عبادت کے لئے نہ ہ وگی کیونکہ وہ عالم دارلتکلیف نہیں ہے بلکہ جن کے سجدے نامقبول ہیں ان کا امتیاز مقصود ہوگا تاکہ عبادت مقبولہ اور غیر مقبولہ کا امتیاز ہوجائے جن کی عبادت خلوص کے ساتھ دنیا میں ادا ہوتی تھی وہ سجدہ کریں گے اور جو مخلصانہ عبادت نہ کرتے تھے یا بالکل عبادت کے خوگر نہ تھے وہ قادر نہ ہوسکیں گے۔ اسی کو فرمایا کہ دنیا میں ان کو نماز کی دعوت دی جاتی تھی یا اس دین کی طرف دعوت دی جاتی تھی س میں اہم العبادات نماز اور سجدہ تھا حالانکہ یہ اس وقت صحیح سالم تھے تو یہ اس طرف نہ آتے تھے اور چونکہ سجدہ پر قدرت نہ ہوگی نفاق اور کفر ظاہر ہوجائے گا اس لئے حرماں نصیبی کے آثار چہرے پر نمایاں ہوجائیں گے آنکھیں شرمندگی سے نوی اور جھکی ہوئی ہوں گی اور ان پر ذلت و پھٹکار چھارہی ہوگی یہ کشف ساق بھی مثل ید اور وجہ کے متشابہات سے ہے۔ اس لئے مفسرین نے بہت سی تفسیریں کی ہیں لیکن ہم ن ترجمے میں ایک خاص قسم کی تجلی کردی ہے اس موقعہ پر عرب کی بہت سی مثالیں اور محاورے بیان کرنا اور اسکے معنی شدت اور سختی کرنا اگرچہ اہل عرب عام استعمال کشف ساق کا ایسے ہی موقعہ پر کیا کرتے ہیں کیونکہ پریشانی اور سختی کی موقعہ پر جو جدوجہد کی جاتی ہے اس وقت مستعدی اور تیاری کے لئے آدمی اپنادامن اٹھالیتا ہے بلکہ عرب میں کیا ہندوستان میں بھی لوگ بھاگتے اور دوڑتے وقت پائجامے کے پائنچے چڑھا لیتے ہیں غرض اسی قسم کی پریشانی اور جدوجہد کے موقعہ پر یہ کشف ساق کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اس لئے بہت سے مفسرین اس کی توجیہہ کرتے وقت یہ محاورے نقل کئے ہیں مگر ہم سمجھتے ہیں کہ یہ توجہیات اپنی جگہ سب صحیح ہیں لیکن اس آیت کی تفسیر چونکہ احادیث میں آچکی ہے اس لئے ایک سیدھی سادھی بات کو اس قدر الجھانے کی ضرورت نہیں بلکہ سیدھی اور صاف بات یہ ہے کہ ساق حقیقت الٰہیہ میں سے ایک حقیقت کا نام ہے جس کو عام حقائق الٰہیہ سے وہ نسبت ہے جیسی نسبت پنڈلی کو تماماعضائے انسانیہ کے ساتھ ہے اس لئے تشبیہہ اور استعارے کے طور پر اس حقیقت کا نام ساق رکھا گیا ہے اس حقیقت کے انکشاف کو فرمایا ہے۔ یوم یکشف عن ساق۔ زیادہ تفصیل دیکھنی ہو تو تفسیر عزیزی کو ملاحظہ کیا جائے اہل موقوف کے لئے ساق اور اہل جہنم کے لئے قدم ان دو حقیقتوں کا اظہار ہوگا۔ واللہ اعلم بہرحال خلاصہ آیت کا یہ ہے کہ اس دن حقیقت ساق کا انکشاف ہوگا اور امتحان کے لئے سجدے کی دعوت دی جائے گی نہ عبادت وثواب کے لئے اس امتحان میں کافر اور منافق فیل اور ناکام ہوجائیں گے ان کی آنکھیں شرمندگی سے نیچی اور ان پر ذلت و رسوائی چھائی ہوئی ہوگی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ان کو سجدوں کی یا نماز کی دنیا میں دعوت دی جاتی تھی یا اسلام کی طرف بلایا جاتا تھا حالانکہ یہ صحیح سالم اور تندرست و توانا تھے قدرت علی الاسلام اور علی الصلوٰۃ رکھتے تھے لیکن اس کیا وجود نہیں آتے تھے۔ اس لئے آج انکشاف حقیقت کے وقت قدرت علی السجود ان سے سلب کرلی گئی۔ (العیاذ باللہ) حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں حشر کے دن ہر امت جس کو پوجتی تھی اس کے ساتھ جاویگی مسلمان کھڑے رہ جاویں گے پروردگار آوے گا جس صورت میں نہ پہچانیں گے فرمائے گا میں تمہارا رب ہوں میرے ساتھ آئو، کہیں گے نعوذ باللہ ہمارا رب آوے گا تو ہم پہچان لیں گے فرمائیگا کچھ اس کا نشان جانتے ہو کہیں گے جانتے ہیں پھر ظاہر ہوگا ان کی پہچان کے موافق اور پنڈلی کھولے گا تو سجدے میں گریں گے جو سچی بات سے سجدہ نہ کرتا تھا اس کی پیٹھ نہ مڑے گی الٹا کرے گا یہ ان کا اعتقاد و توحید آزمانے کو کہ صورت پوجنے سے ایسے بیزار ہیں۔ یہ ایک مشہور حدیث ہے جس کا ترجمہ شاہ صاحب نے کیا ہے۔ شارحین حدیث فرماتے ہیں کہ پہلے کوئی فرشتہ کسی صورت میں ظاہر ہوکر کہے گا میں تمہارا رب ہوں یہ پناہ مانگیں گے اس سے خدا کی تب کشف ساق یعنی ساق کی حقیقت کا انکشاف ہوگا تب سب سجدے میں گرپڑیں گے آگے مکذبین کے بارے میں پیغمبر (علیہ السلام) کو خطاب ہے۔
Top