Maarif-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 11
وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیَاتُنَا بَیِّنٰتٍ١ۙ قَالَ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَیْرِ هٰذَاۤ اَوْ بَدِّلْهُ١ؕ قُلْ مَا یَكُوْنُ لِیْۤ اَنْ اُبَدِّلَهٗ مِنْ تِلْقَآئِ نَفْسِیْ١ۚ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰۤى اِلَیَّ١ۚ اِنِّیْۤ اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ
وَاِذَا : اور جب تُتْلٰى : پڑھی جاتی ہیں عَلَيْهِمْ : ان پر (ان کے سامنے) اٰيَاتُنَا : ہماری آیات بَيِّنٰتٍ : واضح قَالَ : کہتے ہیں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يَرْجُوْنَ : امید نہیں رکھتے لِقَآءَنَا : ہم سے ملنے کی ائْتِ : تم لے آؤ بِقُرْاٰنٍ : کوئی قرآن غَيْرِ ھٰذَآ : اس کے علاوہ اَوْ : یا بَدِّلْهُ : بدل دو اسے قُلْ : آپ کہہ دیں مَا يَكُوْنُ : نہیں ہے لِيْٓ : میرے لیے اَنْ : کہ اُبَدِّلَهٗ : اسے بدلوں مِنْ : سے تِلْقَآئِ : جانب نَفْسِيْ : اپنی اِنْ اَتَّبِعُ : میں نہیں پیروی کرتا اِلَّا مَا : مگر جو يُوْحٰٓى : وحی کی جاتی ہے اِلَيَّ : میری طرف اِنِّىْ : بیشک میں اَخَافُ : ڈرتا ہوں اِنْ : اگر عَصَيْتُ : میں نے نافرمانی کی رَبِّيْ : اپنا رب عَذَابَ : عذاب يَوْمٍ : دن عَظِيْمٍ : بڑا
اور جب پڑھی جاتی ہیں ان کے سامنے آیتیں ہماری واضح، کہتے ہیں وہ لوگ جن کو امید نہیں ہم سے ملاقات کی لے آ کوئی قرآن اس کے سوا یا اس کو بدل ڈال، تو کہہ دے میرا کام نہیں کہ اس کو بدل ڈالوں اپنی طرف سے، میں تابع داری کرتا ہوں اسی کی جو حکم آئے میری طرف، میں ڈرتا ہوں اگر نافرمانی کروں اپنے رب کی، بڑے دن کے عذاب سے،
پانچویں، چھٹی، ساتویں، آٹھویں چار آیتوں میں منکرین آخرت کے ایک غلط خیال اور بےجا فرمائش کی تردید ہے، ان لوگوں کو نہ خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل تھی اور نہ وحی و رسالت کے سلسلہ سے واقف تھے، انبیاء علہیم السلام کو بھی عام انسانوں کی طرح جانتے تھے قرآن کریم جو رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ دنیا کو پہنچا اس کے متعلق بھی ان کا یہ خیال تھا کہ یہ خود آپ کا کلام اور آپ کی تصنیف ہے، اسی خیال کی بناء پر آنحضرت ﷺ سے یہ مطالبہ کیا کہ قرآن تو ہمارے اعتقادات و نظریات کے خلاف ہے جن بتوں کی ہمارے باپ دادا ہمیشہ تعظیم کرتے آئے اور ان کو حاجت روا مانتے آئے ہیں قرآن ان سب کو باطل اور لغو قرار دیتا ہے، بہت سی چیزیں اور معاملات جو ہم برابر استعمال کرتے آئے ہیں قرآن ان سب کو حرام قرار دیتا ہے، اور پھر قرآن ہمیں یہ بتاتا ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا اور حساب کتاب دینا ہوگا، یہ سب چیزیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں ہم ان کو ماننے کے لئے تیار نہیں، اس لئے آپ یا تو ایسا کریں کہ اس قرآن کے بجائے کوئی دوسرا قرآن بنادیں جس میں یہ چیزیں نہ ہوں یا کم ازکم اسی میں ترمیم کرکے ان چیزوں کو نکال دیں۔
قرآن کریم نے اول ان کے غلط اعتقاد کو رد کرتے ہوئے آنحضرت ﷺ کو یہ ہدایت فرمائی کہ آپ ان سے کہہ دیں کہ یہ نہ میرا کلام ہے، نہ اپنی طرف سے اس کو بدل سکتا ہوں میں تو صرف وحی الہٰی کا تابع ہوں، اگر میں ذرا بھی اس میں اپنے اختیار سے کوئی تبدیلی کروں تو سخت گناہ کا مرتکب ہوں گا اور نافرمانی کرنے والوں پر جو عذاب مقرر ہے میں اس سے ڈرتا ہوں اس لئے ایسا نہیں کرسکتا۔
پھر فرمایا کہ میں جو کچھ کرتا ہوں فرمان خداوندی کے تابع کرتا ہوں، اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت یہ ہوتی کہ تمہیں یہ کلام نہ سنایا جائے تو نہ میں تمہیں سناتا اور نہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس سے باخبر کرتے اور جب اللہ تعالیٰ کو یہی منظور ہے کہ تمہیں یہی کلام سنوایا جائے تو کس کی مجال ہے جو اس میں کوئی کمی بیشی کرسکے۔
Top