Maarif-ul-Quran - Yunus : 91
آٰلْئٰنَ وَ قَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَ كُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ
آٰلْئٰنَ : کیا اب وَقَدْ عَصَيْتَ : اور البتہ تو نافرمانی کرتا رہا قَبْلُ : پہلے وَكُنْتَ : اور تو رہا مِنَ : سے الْمُفْسِدِيْنَ : فساد کرنے والے
اب یہ کہتا ہے اور تو نافرمانی کرتا رہا اس سے پہلے اور رہا گمراہوں میں۔
پانچویں آیت میں خود حق تعالیٰ شانہ کی طرف سے اس کا یہ جواب آیا ہے (آیت) اٰۗلْئٰنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِيْنَ ، یعنی کیا اب تم مسلمان ہوتے ہو جب کہ ایمان و اسلام کا وقت گزر چکا۔
اس سے ثابت ہوا کہ عین موت کے وقت کا ایمان لانا شرعاً معتبر نہیں، اس کی مزید تشریح اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بندہ کی توبہ قبول فرماتے رہتے ہیں جب تک غرغرہ موت کا وقت نہ آجائے (ترمذی)۔
غرغرہ موت سے مراد وہ وقت ہے جب نزع روح کے وقت فرشتے سامنے آجاتے ہیں اس وقت دارالعمل دنیا کی زندگی ختم ہو کر آخرت کے احکام شروع ہوجاتے ہیں، اس لئے اس وقت کا کوئی عمل قابل قبول نہیں، نہ ایمان نہ کفر، ایسے وقت جو ایمان لاتا ہے اس کو بھی مومن نہیں کہا جائے گا اور اس کے ساتھ کفن دفن میں مسلمانوں کا سا معاملہ نہ کیا جائے گا، جیسا کہ فرعون کے اس واقعہ سے ثابت ہے کہ بالاجماع فرعون کی موت کفر پر قرار دی گئی ہے نصوص قرآن سے بھی یہی واضح ہے اور جس کسی نے فرعون کے اس ایمان کو معتبر کہا ہے یا تو اس کی کوئی تاویل کی جائے ورنہ اسے غلط کہا جائے گا (روح)۔
اس طرح اگر خدانخواستہ ایسی ہی نزع روح کی حالت میں کسی شخص کی زبان سے کلمہ کفر نکل جائے تو اس کو کافر بھی نہ کہا جائے گا بلکہ اس کے جنازہ کی نماز پڑھ کر مسلمانوں کی طرح دفن کیا جائے گا اور اس کے کلمہ کفر کی تاویل کی جائے گی جیسا کہ بعض اولیاء اللہ کے حالات سے اس کی تائید ہوتی ہے کہ جو کلمہ ان کی زبان سے نکل رہا تھا لوگ اس کو کلمہ کفر سمجھ کر پریشان تھے بعد میں کچھ ہوش آیا اور اپنا مطلب بتلایا تو سب کو اطمینان ہوگیا کہ وہ عین ایمان کا کلمہ تھا۔
خلاصہ یہ ہے کہ جس وقت روح نکل رہی ہو اور نزع کا عالم ہو وہ وقت دنیا کی زندگی میں شمار نہیں، اس وقت کا کوئی عمل بھی شرعا معتبر نہیں، اس سے پہلے پہلے ہر عمل معتبر ہے، مگر دیکھنے والوں کو اس میں بڑی احتیاط لازم ہے کیونکہ اس کا صحیح اندازہ کرنے میں غلطی ہوسکتی کہ یہ وقت نزع روح کا اور غرغرہ موت کا ہے یا اس سے پہلے کا۔
Top