Maarif-ul-Quran - Hud : 51
یٰقَوْمِ لَاۤ اَسْئَلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا١ؕ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَى الَّذِیْ فَطَرَنِیْ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
يٰقَوْمِ : اے میری قوم لَآ اَسْئَلُكُمْ : میں تم سے نہیں مانگتا عَلَيْهِ : اس پر اَجْرًا : کوئی اجر (صلہ) اِنْ : نہیں اَجْرِيَ : میرا صلہ اِلَّا : مگر (صرف) عَلَي : پر الَّذِيْ فَطَرَنِيْ : جس نے مجھے پیدا کیا اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : کیا پھر تم سمجھتے نہیں
اے قوم میں تم سے نہیں مانگتا اس پر مزدوری میری مزدوری اسی پر ہے جس نے مجھ کو پیدا کیا پھر کیا تم نہیں سمجھتے،
وعظ و نصیحت اور دعوت دین پر اجرت
قرآن کریم نے یہ بات تقریبا سب ہی انبیاء کی زبان سے نقل کی ہے کہ ہم تم سے اپنی دعوت و محنت کا کوئی معاوضہ نہیں مانگتے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دعوت و تبلیغ کا اگر معاوضہ لیا جائے تو دعوت مؤ ثر نہیں رہتی، جس پر تجربہ شاہد ہے کہ وعظ و نصیحت پر اجرت لینے والوں کی بات سامعین پر اثر انداز نہیں ہوتی۔
تیسری بات یہ فرمائی کہ اپنی پچھلی زندگی میں جو کفر و گناہ کرچکے ہو، اللہ تعالیٰ سے ان کی مغفرت مانگو اور اگلی زندگی میں ان سب گناہوں سے توبہ یعنی اس کا پختہ ارادہ اور معاہدہ کرو کہ اب ان کے پاس نہ جائیں گے، اگر تم نے یہ استغفار و توبہ کا عمل کرلیا تو اس کے نتیجہ میں آخرت کی دائمی فلاح تو ملے ہی گی، دنیا میں بھی اس کے بڑے فوائد کا مشاہدہ کرو گے، ایک یہ کہ توبہ و استغفار کرنے سے تمہاری قحط سالی دور ہوجائے گی، وقت پر خوب بارش ہوگی جس سے تمہارے رزق میں وسعت پیدا ہوگی، دوسرے یہ کہ تمہاری طاقت و قوت بڑھ جائے گی۔
یہاں طاقت و قوت کا لفظ عام ہے جس میں بدنی صحت وقت بھی داخل ہے اور وہ طاقت بھی جو مال اور اولاد کی بہتات سے انسان کو حاصل ہوتی ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ گناہوں سے توبہ و استغفار کا خاصہ یہ ہے کہ دنیا میں بھی رزق میں وسعت اور مال و اولاد میں برکت ہوتی ہے۔
حضرت ہود ؑ کی قوم نے ان کی دعوت کا جواب وہی اپنی جاہلانہ روش سے یہ دیا کہ آپ نے ہمیں کوئی معجزہ تو دکھلایا نہیں صرف زبانی بات ہے اس لئے ہم آپ کے کہنے سے اپنے معبودوں کو نہ چھوڑیں گے اور آپ پر ایمان نہ لائیں گے، بلکہ ہمارا خیال تو یہ ہے کہ ہمارے معبود بتوں کو برا کہنے کی وجہ سے آپ کسی دماغی خرابی میں مبتلا ہوگئے اس لئے ایسی باتیں کرتے ہیں۔
اس کے جواب میں ہود ؑ نے پیغمبرانہ جرأت کے ساتھ فرمایا کہ اگر تم میری بات نہیں مانتے تو سن لو کہ میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ میں اللہ کے سوا تمہارے سب معبودوں سے بیزار ہوں اب تم اور تمہارے بت سب ملکر میرے خلاف جو کچھ داؤ گھات کرسکتے ہو کرلو اور اگر میرا کچھ بگاڑ سکتے ہو تو بگاڑ لو اور مجھے ذرا مہلت بھی نہ دو۔
اور فرمایا کہ اتنی بڑی بات میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ میں نے اللہ پر توکل اور بھروسہ کرلیا ہے جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی، جتنے روئے زمین پر چلنے والے ہیں سب کی چوٹی اس نے پکڑ رکھی ہے کسی کی مجال نہیں کہ اس کے اذن و مشیت کے بغیر کسی کو ذرہ برابر نقصان یا تکلیف پہنچا سکے، یقینا میرا رب صراط مستقیم پر ہے، یعنی جو صراط مستقیم پر چلتا ہے، رب اس کو ملتا ہے، اس کی مدد کرتا ہے۔
پوری قوم کے مقابلہ میں ایسا بلند بانگ دعوی اور ان کو غیرت دلانا اور پھر پوری بہادر قوم میں سے کسی کی مجال نہ ہونا کہ ان کے مقاملہ میں کوئی حرکت کرے، یہ سب ایک مستقل معجزہ تھا ہود ؑ کا، جس سے ان کی اس بات کا بھی جواب ہوگیا کہ آپ نے ہمیں کوئی معجزہ نہیں دکھلایا، اور اس کا بھی جواب ہوگیا کہ ہمارے بتوں نے آپ کو دماغی خرابی میں مبتلا کردیا ہے کیونکہ اگر بتوں میں یہ طاقت ہوتی تو اس وقت ان کو زندہ نہ چھوڑتے۔
اس کے بعد فرمایا کہ اگر تم اسی طرح سے برگشتہ رہو گے تو سمجھ لو کہ جو پیغام دے کر مجھے بھیجا گیا ہے میں تمہارے سامنے پہنچا چکا ہوں تو اب اس کا نتیجہ اس کے سوا کیا ہے کہ تم پر خدا کا قہر و غضب آجائے اور تم سب نیست و نابود ہوجاؤ اور میرا رب تمہاری جگہ کسی دوسری قوم کو اس زمین پر آباد کردے، اور اس معاملہ میں جو کچھ کر رہے ہو اپنا ہی نقصان کر رہے ہو، اللہ تعالیٰ کا کچھ نقصان نہیں کر رہے، یقینا میرا رب ہر چیز کی نگہداشت کرتا ہے وہ تمہارے ہر کام اور خیال سے باخبر ہے۔
ان لوگوں نے ان باتوں میں سے کسی چیز پر کان نہ دھرا اور اپنی سرکشی پر قائم رہے تو خدا تعالیٰ کا عذاب ہوا کے طوفان کی صورت میں ان پر نازل ہوا جس نے مکانات اور درختوں کو جڑوں سے اکھاڑ دیا، آدمی اور جانور ہوا میں اڑ کر آسمانی فضا تک جاتے اور وہاں سے اوندھے گرتے تھے آسمان کی طرف سے انسانوں کی چیخ و پکار سنائی دیتی تھی، یہاں تک کہ یہ بیمثال قوت اور ڈیل ڈول رکھنے والی قوم پوری کی پوری ہلاک و برباد ہوگئی۔
جب اس قوم پر عذاب الہٰی کا حکم نافذ ہوا تو اللہ تعالیٰ نے سنت الہٰیہ کے مطابق اپنے پیغمبر اور ان کے ساتھیوں کو اس سخت عذاب سے بچا لیا کہ عذاب آنے سے پہلے ان کو اس جگہ سے نکل جانے کا حکم دے دیا گیا۔
قوم عاد کے واقعہ اور عذاب کا ذکر کرنے کے بعد دوسروں کو عبرت حاصل کرنے کی تلقین کرنے کے لئے ارشاد فرمایا کہ یہ ہے وہ قوم عاد جنہوں نے اپنے رب کی نشانیوں کو جھٹلایا اور اپنے رسولوں کی نافرمانی کی اور ایسے لوگوں کے کہنے پر چلتے رہے جو ظالم اور ضدی تھے۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا میں بھی لعنت یعنی رحمت سے دوری ان کے ساتھ ساتھ لگی رہی اور قیامت میں بھی اسی طرح ساتھ لگی رہے گی۔
اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ قوم عاد پر ہوا کا طوفان مسلط ہوا تھا، مگر سورة مؤ منون میں یہ مذکور ہے کہ ان کو ایک سخت آواز کے ذریعہ ہلاک کیا گیا، ہوسکتا ہے کہ قوم ہود ؑ پر دونوں قسم کے عذاب نازل ہوئے ہوں۔
قوم عاد اور ہود ؑ کا واقعہ تمام ہوا۔
Top