Maarif-ul-Quran - Ar-Ra'd : 34
لَهُمْ عَذَابٌ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ لَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَشَقُّ١ۚ وَ مَا لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مِنْ وَّاقٍ
لَهُمْ : ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب فِي : میں الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَ : اور لَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ : البتہ آخرت کا عذاب اَشَقُّ : نہایت تکلیف دہ وَمَا : اور نہیں لَهُمْ : ان کے لیے مِّنَ اللّٰهِ : اللہ سے مِنْ وَّاقٍ : کوئی بچانے والا
ان کو مار پڑتی ہے دنیا کی زندگی میں اور آخرت کی مار تو بہت ہی سخت ہے، اور کوئی نہیں ان کو اللہ سے بچانے والا
خلاصہ تفسیر
ان کافروں کے لئے دنیوی زندگانی میں (بھی) عذاب ہے (وہ قتل و قید وذلت یا امراض و مصائب ہے) اور آخرت کا عذاب اس سے بدرجہا زیادہ سخت ہے (کیونکہ شدید بھی ہے اور دائم بھی ہے) اور اللہ (کے عذاب) سے ان کو کوئی بچانے والا نہیں ہوگا (اور) جس جنت کا متقیوں سے (یعنی شرک و کفر سے بچنے والوں سے) وعدہ کیا گیا ہے اس کی کیفیت یہ کہ اس (کی عمارات اور اشجار) کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی اور اس کا پھل اور اس کا سایہ دائم رہے گا یہ تو انجام ہوگا متقیوں کا اور کافروں کا انجام دوزخ ہوگا اور جن لوگوں کو ہم نے (آسمانی) کتاب (یعنی تورات و انجیل) دی ہے (اور وہ اس کو پورے طور سے مانتے تھے) وہ اس (کتاب) سے خوش ہوئے ہیں جو آپ پر نازل کی گئی ہے (کیونکہ اس کی خبر اپنی کتابوں میں پاتے ہیں اور خوش ہو کر مان لیتے ہیں اور ایمان لے آتے ہیں جیسے یہود میں عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھی اور نصاری میں نجاشی اور ان کے فرستادے جن کا ذکر اور آیات میں بھی ہے) اور انہی کے گروہ میں بعضے ایسے ہیں کہ اس (کتاب) کے بعض حصہ کا (جس میں ان کی کتاب کے خلاف احکام ہیں) انکار کرتے ہیں (اور کفر کرتے ہیں) آپ (ان سے) فرمائیے کہ (احکام دو قسم کے ہیں اصول اور فروع اگر تم اصول میں مخالف ہو سو وہ سب شرائع میں مشترک ہیں چنانچہ) مجھ کو (توحید کے متعلق) صرف یہ حکم ہوا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کروں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھراؤں (اور نبوت کے متعلق یہ بات ہے کہ) میں (لوگوں کو) اللہ ہی کی طرف بلاتا ہوں (یعنی نبوت کا حاصل یہ ہے کہ میں داعی الی اللہ ہوں) اور (میعاد کے متعلق میرا یہ عقیدہ ہے کہ) اسی کی طرف مجھ کو (دنیا سے لوٹ کر) جانا ہے (یعنی اصول یہ تین ہیں سو ان میں سے ایک بھی قابل انکار نہیں چناچہ توحید سب کے نزدیک مسلم ہے جیسا کہ یہی مضمون دوسری آیت میں ہے (قل تعالوا کلمۃ سواء بننا الخ) اور نبوت میں اپنے لئے مال وجاہ نہیں چاہتا جس پر انکار کی گنجائش ہو محض دعوت الی اللہ کرتا ہوں سو ایسے لوگ پہلے بھی ہوئے ہیں جس کو تم بھی مانتے ہو جیسا یہی مضمون دوسری جگہ بھی ہے (آیت) مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّؤ ْتِيَهُ اللّٰهُ الْكِتٰبَ الخ اسی طرح میعاد کا عقیدہ مشترک اور مسلم اور غیر قابل انکار ہے اور اگر فروع میں مخالف ہو تو اس کا جواب اللہ تعالیٰ یوں دیتے ہیں کہ ہم نے جس طرح اور رسولوں کو خاص خاص زبانوں میں خاص احکام دیئے) اسی طرح ہم نے اس (قرآن) کو اس طور پر نازل کیا کہ وہ خاص حکم ہے عربی زبان میں (عربی کی تصریح سے اشارہ ہوگیا دوسرے انبیاء (علیہم السلام) کی دوسری زبانوں کی طرف اور زبانوں کے اختلاف سے اشارہ ہوگیا اختلاف امم کی طرف تو حاصل جواب کا یہ ہوا کہ فروع میں اختلاف بسبب اختلاف امم کے ہوا کیونکہ مصالح امم کے ہر زمانہ میں جداگانہ ہیں پس یہ اختلاف شرائع کا مقتضی مخالفت نہیں چناچہ خود شرائع مسلمہ میں بھی ایسا اختلاف فروع کا ہوا ہے پھر تمہاری مخالفت و انکار کی کیا گنجائش ہے) اور (اے محمد ﷺ اگر آپ (بفرض محال) ان کے نفسانی خیالات کا (یعنی احکام منسوخہ یا احکام محرفہ کا) اتباع کرنے لگیں بعد اس کے کہ آپ کے پاس (احکام مقصودہ کا) علم (صحیح) پہنچ چکا ہے تو اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں نہ کوئی آپ کا مددگار ہوگا اور نہ کوئی بچانے والا (اور جب نبی کو ایسا خطاب کیا جا رہا ہے تو اور لوگ انکار کر کے کہاں رہیں گے سو اس میں تعریض ہے اہل کتاب کے ساتھ پس دونوں شقوں پر منکرین و مخالفین کا جواب ہوگیا)
Top