Maarif-ul-Quran - Ibrahim : 34
وَ اٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُ١ؕ وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا١ؕ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ كَفَّارٌ۠   ۧ
وَاٰتٰىكُمْ : اور اس نے تمہیں دی مِّنْ : سے كُلِّ : ہر چیز مَا : جو سَاَلْتُمُوْهُ : تم نے اس سے مانگی وَاِنْ : اور اگر تَعُدُّوْا : گننے لگو تم نِعْمَتَ : نعمت اللّٰهِ : اللہ لَا تُحْصُوْهَا : اسے شمار میں نہ لا سکو گے اِنَّ : بیشک الْاِنْسَانَ : انسان لَظَلُوْمٌ : بیشک بڑا ظالم كَفَّارٌ : ناشکرا
اور دیا تم کو ہر چیز میں سے جو تم نے مانگی، اور اگر گنو احسان اللہ کے نہ پورے کرسکو بیشک آدمی بڑا بےانصاف ہے ناشکر
(آیت) وَاٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُ یعنی اللہ تعالیٰ نے دیا تم کو ہر اس چیز میں سے جو تم نے مانگی اگرچہ اللہ تعالیٰ کی عطا اور بخشش کسی کے مانگنے پر موقوف نہیں ہم نے تو اپنا وجود بھی نہیں مانگا تھا اسی نے اپنے فضل سے بےمانگے عطا فرمایا۔
مانبودیم و تقاضا مانبود لطف تو ناگفتہ مامی شنود
اسی طرح آسمان، زمین، چاند، سورج، وغیرہ پیدا کرنے کی دعا کس نے مانگی تھی یہ سب کچھ مالک نے بےمانگے ہی دیا ہے اسی لئے قاضی بیضاوی نے اس لفظ کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو ہر وہ چیز دے دیجو مانگنے کے قابل ہے اگرچہ تم نے مانگا نہ ہو لیکن اگر الفاظ کے ظاہری معنی ہی مراد ہوں تو ان میں بھی کچھ اشکال نہیں کہ عموما انسان جو کچھ مانگتا اور طلب کرتا ہے اکثر تو اس کو دے ہی دیا جاتا ہے اور جہاں کہیں اس کا سوال اپنی ظاہری صورت میں پورا نہیں کیا جاتا اس میں اس شخص کے لئے یا پورے عالم کے لئے کوئی مصلحت ہوتی ہے جس کا اس کو علم نہیں ہوتا مگر علیم وخبیر جانتے ہیں کہ اگر اس کا یہ سوال پورا کردیا گیا تو خود اس کے لئے یا اس کے خاندان کے لئے یا پورے عالم کے لئے وبال جان بن جائے گا ایسی صورت میں سوال کا پورا نہ کرنا ہی بڑی نعمت ہوتی ہے مگر انسان اپنے قصور علم کی وجہ سے اس کو نہیں جانتا اس لئے غمگین ہوتا ہے۔
(آیت) وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا یعنی اللہ تعالیٰ کی نعمتیں انسان پر اس قدر ہیں کہ سب انسان مل کر ان کو شمار کرنا چاہیں تو شمار میں بھی نہیں آسکتیں انسان کا اپنا وجود خود ایک عالم اصغر ہے اس کی آنکھ، ناک، کان اور ہاتھ پاؤں اور بدن کے ہر جوڑ بلکہ ہر رگ وریشہ میں رب العزت کی غیر متناہی نعمتیں مستور ہیں جن سے یہ چلتی پھرتی سینکڑوں نازک مشینوں کی عجیب و غریب فیکڑی ہر وقت مشغول بکا رہے پھر آسمان و زمین اور دونوں کی مخلوقات سمندروں پہاڑوں کی مخلوقات کہ آج کی جدید تحقیقات اور اس میں عمریں کھپانے والے ہزاروں ماہرین بھی ان کا احاطہ نہیں کرسکے پھر نعمتیں صرف وہی نہیں جو مثبت صورت میں عام طور پر نعمت سمجھی جاتی ہیں بلکہ ہر مرض ہر تکلیف، ہر مصیبت ہر رنج و غم سے محفوظ رہنا الگ الگ مستقل نعمت ہے ایک انسان کو کتنی قسم کی بیماریاں اور کتنی اقسام کی بدنی اور ذہنی تکلیفیں دنیا میں پیش آسکتی ہیں انہی کا شمار ایک انسان سے نہیں ہوسکتا اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پورے عطیات اور نعمتوں کا شمار کس سے ہوسکتا ہے۔
انصاف کا تقاضا یہ تھا کہ بیشمار نعمتوں کے بدلہ میں بیشمار عبادت اور بیشمار شکر لازم ہوتا مگر اللہ تعالیٰ نے ضعیف البنیان انسان کی رعایت فرمائی جب وہ حقیقت پر نظر کرکے یہ اعتراف کرلے کہ شکر واجب سے سبکدوش ہونا اس کی قدرت میں نہیں تو اسی اعتراف کو ادائے شکر کے قائم مقام قرار دے دیا ہے جیسا کہ حق تعالیٰ نے حضرت داؤد ؑ کے ایسے ہی اعتراف پر ارشاد فرمایا کہ الان قد شکرت یا داؤد یعنی یہ اعتراف کرلینا ہی ادائے شکر کے لئے کافی ہے۔
آخر آیت میں فرمایا (آیت) اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ كَفَّارٌ یعنی انسان بہت بےانصاف اور بڑا ناشکرا ہے یعنی مقتضی انصاف کا تو یہ تھا کہ کوئی تکلیف و مصیبت پیش آئے تو صبر و سکون سے کام لے زبان اور دل کو شکایت سے پاک رکھے اور سمجھے کہ یہ جو کچھ پیش آیا ہے ایک حاکم حکیم کی طرف سے آیا ہے وہ بھی مقتضائے حکمت ہونے کی بناء پر ایک نعمت ہی ہے اور جب کوئی راحت و نعمت ملے تو دل اور زبان ہر عمل سے اس کا شکر گذار ہو مگر عام انسانوں کی عادت اس مختلف ہے کہ ذرا مصیبت و تکلیف پیش آجائے تو بےصبری میں مبتلا ہوجائیں اور کہتے پھریں اور ذرا نعمت و دولت مل جائے تو اس میں مست ہو کر خدا تعالیٰ کو بھلا دیں اسی لئے مؤمنین مخلصین کی صفت پچھلی آیت میں صبارا اور شکور بتلائی گئی ہے۔
Top