Maarif-ul-Quran - Ibrahim : 3
اِ۟لَّذِیْنَ یَسْتَحِبُّوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا عَلَى الْاٰخِرَةِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ یَبْغُوْنَهَا عِوَجًا١ؕ اُولٰٓئِكَ فِیْ ضَلٰلٍۭ بَعِیْدٍ
الَّذِيْنَ : وہ جو کہ يَسْتَحِبُّوْنَ : پسند کرتے ہیں الْحَيٰوةَ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا عَلَي الْاٰخِرَةِ : آخرت پر وَيَصُدُّوْنَ : اور روکتے ہیں عَنْ : سے سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ وَيَبْغُوْنَھَا : اور اس میں ڈھونڈتے ہیں عِوَجًا : کجی اُولٰٓئِكَ : وہی لوگ فِيْ : میں ضَلٰلٍۢ : گمراہی بَعِيْدٍ : دور
جو کہ پسند رکھتے ہیں زندگی دنیا کی آخرت سے اور روکتے ہیں اللہ کی راہ سے اور تلاش کرتے ہیں اس میں کجی، وہ راستہ بھول کر جا پڑے ہیں دور
(آیت) الَّذِيْنَ يَسْتَحِبُّوْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا عَلَي الْاٰخِرَةِ وَيَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَيَبْغُوْنَھَا عِوَجًا ۭ اُولٰۗىِٕكَ فِيْ ضَلٰلٍۢ بَعِيْدٍ
اس آیت میں منکریں قرآن کافروں کے تین حال بتلائے گئے ہیں ایک یہ کہ وہ دنیا کی زندگی کو بہ نسبت آخرت کے زیادہ پسند کرتے ہیں اور ترجیح دیتے ہیں اسی لئے دنیا کے نفع یا آرام کی خاطر آخرت کا نقصان کرنا گوارا کرلیتے ہیں اس میں ان کے مرض کی تشخیص کی طرف اشارہ ہے کہ یہ لوگ قرآن کریم کے واضح معجزات دیکھنے کے باوجود اس سے منکر کیوں ہیں وجہ یہ ہے کہ ان کو دنیا کی موجودہ زندگی کی محبت نے آخرت کے معاملات سے اندھا کر رکھا ہے اس لئے ان کو اپنی اندہیری ہی پسند ہے روشنی کی طرف آنے سے کوئی رغبت نہیں۔
دوسری خصلت ان کی یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ خود تو اندہیریوں میں رہنے کو پسند کرتے ہی ہیں اس پر ظلم یہ ہے کہ وہ اپنی غلطی پر پردہ ڈالنے کے لئے دوسروں کو بھی روشنی کی شاہراہ یعنی اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔
قرآن فہمی میں بعض غلطیوں کی نشاندہی
تیسری خصلت وَيَبْغُوْنَھَا عِوَجًا میں بیان کی گئی ہے اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ یہ لوگ اپنی بدباطنی اور بدعملی کے سبب اس فکر میں لگے رہتے ہیں کہ اللہ کے روشن اور سیدھے راستہ میں کوئی کجی اور خرابی نظر آئے تو ان کو اعتراض اور طعن کا موقع ملے ابن کثیر نے یہی معنی بیان فرمائے ہیں۔
اور اس جملہ کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ یہ لوگ اس فکر میں لگے رہتے ہیں کہ اللہ کے راستے یعنی قرآن وسنت میں کوئی چیز ان کے خیالات اور خواہشات کے موافق مل جائے تو اس کو اپنی حقانیت کے استدلال میں پیش کریں تفسیر قرطبی میں اسی معنی کو اختیار کیا گیا ہے جیسے آج کل بیشمار اہل علم اس میں مبتلا ہیں کہ اپنے دل میں ایک خیال کبھی اپنی غلطی سے کبھی کسی دوسری قوم سے متاثر ہو کر گھڑ لیتے ہیں پھر قرآن و حدیث میں اس کے مؤ یدات تلاش کرتے ہیں اور کہیں کوئی الفظ اس خیال کی موافقت میں نظر پڑگیا تو اس کو اپنے حق میں قرآنی دلیل سمجھتے ہیں حالانکہ یہ طریقہ کار اصولا ہی غلط ہے کیونکہ مومن کا کام یہ ہے کہ اپنے خیالات و خواہشات سے خالی الذہن ہو کر کتاب وسنت کو دیکھے جو کچھ ان سے واضح طور پر ثابت ہوجائے اسی کو اپنا مسلک قرار دے۔
(آیت) اُولٰۗىِٕكَ فِيْ ضَلٰلٍۢ بَعِيْدٍ اس جملہ میں ان کفار کا انجام بد بیان کیا گیا ہے جن کی تین صفتیں اوپر بیان ہوئی ہیں اور حاصل اس کا یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی گمراہی میں بڑی دور جا پہنچے ہیں کہ اب ان کا راہ پر آنا مشکل ہے۔
احکام و مسائل
تفسیر قرطبی میں ہے کہ اگرچہ اس آیت میں صراحۃ یہ تین خصلتیں کفار کی بیان کی گئی ہیں اور انہی کا یہ انجام ذکر کیا گیا ہے کہ وہ گمراہی میں دور چلے گئے ہیں لیکن اصول کی رو سے جس مسلمان میں بھی یہ تین خصلتیں موجود ہوں وہ بھی اس وعید کا مستحق ہے ان تین خصلتوں کا خلاصہ یہ ہے
1 دنیا کی محبت کو آخرت پر غالب رکھیں یہاں تک کہ دین کی روشنی میں نہ آئیں۔
2 دوسروں کو بھی اپنے ساتھ شریک رکھنے کے لئے اللہ کے راستہ سے روکیں۔
3 قرآن وسنت کو ہیر پھیر کر کے اپنے خیالات پر منطبق کرنے کی کوشش کریں۔ نعوذ باللہ منہ
Top