Maarif-ul-Quran - An-Nahl : 110
ثُمَّ اِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِیْنَ هَاجَرُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا فُتِنُوْا ثُمَّ جٰهَدُوْا وَ صَبَرُوْۤا١ۙ اِنَّ رَبَّكَ مِنْۢ بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠   ۧ
ثُمَّ : پھر اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے هَاجَرُوْا : انہوں نے ہجرت کی مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا : کہ فُتِنُوْا : ستائے گئے وہ ثُمَّ : پھر جٰهَدُوْا : انہوں نے جہاد کیا وَصَبَرُوْٓا : اور انہوں نے صبر کیا اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب مِنْۢ بَعْدِهَا : اس کے بعد لَغَفُوْرٌ : البتہ بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
پھر بات یہ ہے کہ تیرا رب ان لوگوں پر کہ انہوں نے وطن چھوڑا ہے بعد اس کے کہ مصیبت اٹھائی پھر جہاد کرتے رہے اور قائم رہے بیشک تیرا رب ان باتوں کے بعد بخشنے والا مہربان ہے
خلاصہ تفسیر
پچھلی آیت میں کفر پر وعید کا ذکر تھا خواہ کفر اصلی ہو یا ارتداد کا کفر اس کے بعد کی مذکورہ تین آیتوں میں سے پہلی آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ ایمان ایسی دولت ہے کہ جو کافر یا مرتد سچا ایمان لے آئے اس کے پچھلے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔
دوسری آیت میں قیامت کا ذکر اس لئے کیا گیا کہ یہ جزا و سزا سب قیامت کے دن ہی ہونے والی ہے۔
تیسری آیت میں یہ بتلایا گیا کہ کفر و معاصی کی اصلی سزا تو قیامت کے بعد ہی ملے گی مگر بعض گناہوں کی سزا دنیا میں بھی کچھ مل جاتی ہے، تینوں آیتوں کی مختصر تفسیر یہ ہے، پھر (اگر کفر کے بعد یہ لوگ ایمان لے آویں تو) بیشک آپ کا رب ایسے لوگوں کے لئے کہ جنہوں نے مبتلاء کفر ہونے کے بعد (ایمان لا کر) ہجرت کی پھر جہاد کیا اور (ایمان پر) قائم رہے تو آپ کا رب (ایسے لوگوں کے لئے) ان (اعمال) کے بعد بڑی مغفرت کرنے والا بڑی رحمت کرنے والا ہے (یعنی ایمان اور اعمال صالحہ کی برکت سے سب پچھلے گناہ معاف ہوجاویں گے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ان کو جنت میں بڑے بڑے درجے ملے گیں کفر سے پہلے کے گناہ صرف ایمان سے معاف ہوجاتے ہیں جہاد وغیرہ اعمال صالحہ شرط معافی نہیں لیکن اعمال صالحہ درجات جنت ملنے کے اسباب ہیں اس لئے اس کے ساتھ ذکر کردیا گیا ہے اور جزا و سزا مذکور اس روز واقع ہوگی) جس روز ہر شخص اپنی اپنی طرف داری میں گفتگو کرے گا (اور دوسروں کو نہ پوچھے گا) اور ہر شخص کو اس کے کئے کا پورا بدلہ ملے گا (یعنی نیکی کے بدلے میں کمی نہ ہوگی گو اللہ کی رحمت سے زیادتی ہوجانے کا امکان ہے اور بدی کے بدلے میں زیادتی نہ ہوگی ہاں یہ ممکن ہے کہ رحمت سے اس میں کچھ کمی ہوجائے یہی مطلب ہے اس کا کہ) ان پر ظلم نہ کیا جائے گا (اس کے بعد یہ بتلایا گیا ہے کہ اگرچہ کفر و معصیت کی پوری سزا حشر کے بعد ہوگی مگر کبھی دنیا میں بھی اس کا وبال عذاب کی صورت میں آجاتا ہے) اور اللہ تعالیٰ ایک بستی والوں کی حالت عجیبہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ (بڑے) امن و اطمینان میں رہتے (اور) ان کے کھانے پینے پہننے کی چیزیں بڑی فراغت سے ہر چار طرف سے ان کے پاس پہنچا کرتی تھیں (ان لوگوں نے اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا نہ کیا بلکہ) انہوں نے خدا کی نعمتوں کی بےقدری کی (یعنی کفر و شرک اور معصیت میں مبتلا ہوگئے) اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کی حرکتوں کے سبب سے ایک محیط قحط اور خوف کا مزہ چکھایا (کہ مال و دولت کی فراوانی سلب ہو کر قحط اور بھوک میں مبتلا ہوگئے اور دشمنوں کا خوف مسلط ہو کر کے ان کی بستیوں کا امن و اطمینان بھی سلب کرلیا) اور (اس سزا میں حق تعالیٰ کی طرف سے کچھ جلدی نہیں کی گئی اول اس کی تنبیہ و اصلاح کے واسطے (ان کے پاس انہی میں کا ایک رسول بھی (منجانب اللہ) آیا (جس کے صدق و دیانت کا حال خود اپنی قوم میں ہونے کی وجہ سے ان کو پوری طرح معلوم تھا سو اس (رسول) کو (بھی) انہوں نے جھوٹا بتلایا تب ان کو عذاب نے آپکڑا جب کہ وہ بالکل ہی ظلم پر کمر باندھنے لگے
Top