Maarif-ul-Quran - Al-Israa : 9
اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ یَهْدِیْ لِلَّتِیْ هِیَ اَقْوَمُ وَ یُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ اَجْرًا كَبِیْرًاۙ
اِنَّ : بیشک هٰذَا الْقُرْاٰنَ : یہ قرآن يَهْدِيْ : رہنمائی کرتا ہے لِلَّتِيْ : اس کے لیے جو ھِيَ : وہ اَقْوَمُ : سب سے سیدھی وَيُبَشِّرُ : اور بشارت دیتا ہے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَعْمَلُوْنَ : عمل کرتے ہیں الصّٰلِحٰتِ : اچھے اَنَّ : کہ لَهُمْ : ان کے لیے اَجْرًا كَبِيْرًا : بڑا اجر
یہ قرآن بتلاتا ہے وہ راہ جو سب سے سیدھی ہے اور خوشخبری سناتا ہے ایمان والوں کو جو عمل کرتے ہیں اچھے کہ ان کے لئے ہے ثواب بڑا
ربط آیات
شروع سورت میں معجزہ معراج سے رسول کریم ﷺ کی شان رسالت کا بیان تھا ان آیات میں معجزہ قرآن سے اس کا اثبات ہے۔
خلاصہ تفسیر
بلاشبہ یہ قرآن ایسے طریقہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سیدھا ہے (یعنی اسلام) اور (اس طریقہ کے ماننے اور نہ ماننے والوں کی جزاء وسزا بھی بتلاتا ہے کہ) ان ایمان والوں کو جو نیک کام کرتے ہیں یہ خوشخبری دیتا ہے کہ ان کو بڑا بھاری ثواب ملے گا اور یہ بھی بتلاتا ہے کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہم نے ان کے لئے ایک درد ناک سزا تیار کر رکھی ہے اور (بعض) انسان (جیسے کفار ہیں) برائی (یعنی عذاب) کی ایسی دعا کرتا ہے جس طرح بھلائی کی دعاء (کی جاتی ہے) اور انسان کچھ (کچھ طبعاً ہی) جلد باز (ہوتا) ہے۔

معارف و مسائل
طریق اقوم
قرآن جس طریقہ کی ہدایت کرتا ہے اس کو اقوم کہا گیا ہے اقوم کی تفسیر یہ ہے کہ وہ راستہ جو منزل مقصود تک پہنچانے میں قریب بھی ہو آسان بھی ہو خطرات سے خالی بھی ہو (قرطبی) اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم انسانی زندگی کے لئے جو احکام دیتا ہے وہ ان تینوں اوصاف کے جامع ہیں اگرچہ انسان اپنی کوتاہ فہمی کی وجہ سے بعض اوقات اس راستہ کو دشوار یا پرخطر سمجھنے لگے لیکن رب العالمین جو کائنات کے ذرہ ذرہ کا علم رکھتا ہے اور ماضی و مستقبل اس کے سامنے یکساں ہے وہ ہی اس حقیقت کو جان سکتا ہے کہ انسان کا نفع کس کام اور کس صورت میں زیادہ ہے اور خود انسان چونکہ مجموعی حالات سے واقف نہیں وہ اپنے بھلے برے کو بھی پوری طرح نہیں پہچان سکتا۔
Top