Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 51
یٰۤاُخْتَ هٰرُوْنَ مَا كَانَ اَبُوْكِ امْرَاَ سَوْءٍ وَّ مَا كَانَتْ اُمُّكِ بَغِیًّاۖۚ
يٰٓاُخْتَ هٰرُوْنَ : اے ہارون کی بہن مَا : نہ كَانَ : تھا اَبُوْكِ : تیرا باپ امْرَاَ : آدمی سَوْءٍ : برا وَّ : اور مَا كَانَتْ : نہ تھی اُمُّكِ : تیری ماں بَغِيًّا : بدکار
اے بہن ہارون کی نہ تھا تیرا باپ برا آدمی اور نہ تھی تیری ماں بدکار
(آیت) يٰٓاُخْتَ هٰرُوْنَ حضرت ہارون ؑ جو حضرت موسیٰ ؑ کے بھائی اور ساتھی تھے حضرت مریم کے زمانے سے سینکڑوں برس پہلے گزر چکے تھے یہاں حضرت مریم کو ہارون کی بہن قرار دینا ظاہر ہے کہ اپنے اس ظاہری مفہوم کے اعتبار سے نہیں ہوسکتا اسی لیے جب حضرت مغیرہ بن شعبہ کو رسول اللہ ﷺ نے اہل نجران کے پاس بھیجا تو انہوں نے سوال کیا کہ تمہارے قرآن میں حضرت مریم کو اخت ہارون کہا گیا ہے حالانکہ ہارون ؑ ان سے بہت قرنوں پہلے گزر چکے ہیں حضرت مغیرہ کو اس کا جواب معلوم نہ تھا جب واپس آئے تو رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا آپ نے فرمایا کہ تم نے ان سے یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ اہل ایمان کی عادت یہ ہے کہ تبرکا انبیاء علیہہم السلام کے ناموں پر اپنے نام رکھتے ہیں اور ان کی طرف نسبت کیا کرتے ہیں (رواہ احمد و مسلم والترمذی والنسائی) اس حدیث کے مطلب میں دو احتمال ہیں۔ ایک یہ کہ حضرت مریم کی نسبت حضرت ہارون کی طرف اس لیے کردی گئی کہ وہ ان کی نسل و اولاد میں سے ہیں اگرچہ زمانہ کتنا ہی بعید ہوگیا ہو جیسے عرب کی عادت ہے، کہ قبلہ تمیم کے آدمی کو اخاتمیم اور عرب کے آدمی کو اخاعرب بولتے ہیں۔ دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ یہاں ہارون سے مراد ہارون نبی حضرت موسیٰ ؑ کے رفیق مراد نہیں بلکہ حضرت مریم کے اپنے بھائی کا نام ہارون تھا جو تبرکاً حضرت ہارون نبی کے نام پر رکھا گیا تھا اس طرح مریم کو اخت ہارون کہنا اپنے حقیقی مفہوم کے اعتبار سے درست ہوگیا۔
(آیت) مَا كَانَ اَبُوْكِ امْرَاَ سَوْءٍ ان الفاظ قرآن سے اس طرف اشارہ ہے کہ جو شخص اولیاء اللہ اور صالحین کی اولاد میں ہو وہ اگر کوئی برا کام کرتا ہے تو وہ عام لوگوں کے گناہ سے زیادہ بڑا گناہ ہوتا ہے کیونکہ اس سے اس کے بڑوں کی رسوائی اور بدنامی ہوتی ہے اس لیے اولاد صالحین کو اعمال صالحہ اور تقویٰ کی زیادہ فکر کرنا چاہیے۔
Top