Maarif-ul-Quran - Maryam : 42
اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ یٰۤاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَ لَا یُبْصِرُ وَ لَا یُغْنِیْ عَنْكَ شَیْئًا
اِذْ قَالَ : جب اس نے کہا لِاَبِيْهِ : اپنے باپ کو يٰٓاَبَتِ : اے میرے ابا لِمَ تَعْبُدُ : تم کیوں پرستش کرتے ہو مَا لَا يَسْمَعُ : جو نہ سنے وَلَا يُبْصِرُ : اور نہ دیکھے وَلَا يُغْنِيْ : اور نہ کام آئے عَنْكَ : تمہارے شَيْئًا : کچھ
جی کہا اپنے باپ کو اے باپ میرے کیوں پوجتا ہے اس کو جو نہ سنے اور نہ دیکھے اور نہ کام آئے تیرے کچھ
اپنے بڑوں کو نصیحت کرنے کا طریقہ اور اس کے آداب
يٰٓاَبَتِ عربی لغت کے اعتبار سے یہ لفظ باپ کی تعظیم و محبت کا خطاب ہے۔ حضرت خلیل اللہ علیہ الصلوٰة والسلام کو حق تعالیٰ نے جو مقام جامعیت اوصاف و کمالات کا عطا فرمایا تھا، ان کی یہ تقریر جو اپنے والد کے سامنے ہو رہی ہے اعتدال مزاج اور رعایت اضداد کی ایک بےنظیر تقریر ہے کہ ایک طرف باپ کو شرک و کفر اور کھلی گمراہی میں نہ صرف مبتلا بلکہ اس کا داعی دیکھ رہے ہیں جس کے مٹانے ہی کے لئے خلیل اللہ پیدا کئے گئے ہیں، دوسری طرف باپ کا ادب اور عظمت و محبت ہے ان دونوں ضدوں کو حضرت خلیل اللہ نے کس طرح جمع فرمایا اول تو يٰٓاَبَتِ کا لفظ جو باپ کی مہربانی اور محبت کا داعی ہے ہر جملہ کے شروع میں اس لفظ سے خطاب کیا پھر کسی جملہ میں باپ کی طرف کوئی لفظ ایسا منسوب نہیں جس سے اس کی توہین یا دل آزاری ہو کہ اس کو گمراہ یا کافر کہتے بلکہ حکمت پیغمبرانہ کے ساتھ صرف ان کے بتوں کی بےبسی اور بےحسی کا اظہار فرمایا کہ ان کو خود اپنی غلط روش کی طرف توجہ ہوجائے۔ دوسرے جملہ میں اپنی اس نعمت کا اظہار فرمایا جو اللہ تعالیٰ نے ان کو علوم نبوت کی عطا فرمائی تھی تیسرے اور چوتھے جملے میں اس انجام بد سے ڈرایا جو اس شرک و کفر کے نتیجہ میں آنے والا تھا۔ اس پر بھی باپ نے بجائے کسی غور و فکر یا یہ کہ ان کی فرزندانہ گزارش پر کچھ نرمی کا پہلو اختیار کرتے پورے تشدد کے ساتھ خطاب کیا، انہوں نے تو خطاب يٰٓاَبَتِ کے پیارے لفظ سے کیا تھا جس کا جواب عرف میں یا بنی کے لفظ سے ہونا چاہئے تھا مگر آزر نے ان کا نام لے کر یا ابراہیم سے خطاب کیا اور ان کو سنگسار کرکے قتل کرنے کی دھمکی اور گھر سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔ اس کا جواب حضرت خلیل اللہ کی طرف سے کیا ملتا ہے وہ سننے اور یاد رکھنے کے قابل ہے فرمایا
Top