Maarif-ul-Quran - Maryam : 41
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ١ؕ۬ اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا   ۧ
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم اِنَّهٗ كَانَ : بیشک وہ تھے صِدِّيْقًا : سچے نَّبِيًّا : نبی
اور مذکور کر کتاب میں ابراہیم کا بیشک تھا وہ سچا نبی
خلاصہ تفسیر
اور (اے محمد ﷺ آپ اس کتاب (یعنی قرآن) میں (لوگوں کے سامنے حضرت) ابراہیم ؑ کا (قصہ) ذکر کیجئے (تاکہ ان کو توحید و رسالت کا مسئلہ زیادہ منکشف ہوجاوے) وہ (ہر قول فعل میں) بڑے راستی والے (تھے اور) پیغمبر تھے (اور وہ قصہ جس کا ذکر کرنا اس جگہ مقصود ہے اس وقت ہوا تھا) جب کہ انہوں نے اپنے باپ سے (جو کہ مشرک تھا) کہا کہ اے میرے باپ تم ایسی چیز کی کیوں عبادت کرتے ہو جو نہ کچھ سنے اور نہ کچھ دیکھے اور نہ تمہارے کچھ کام آسکے (مراد بت ہیں حالانکہ اگر کوئی دیکھتا سنتا کچھ کام آتا بھی ہو مگر واجب الوجود نہ ہو تب بھی لائق عبادت نہیں چہ جائے کہ ان اوصاف سے بھی عادی ہو تو وہ بدرجہ اولیٰ لائق عبادت نہ ہوگا) اے میرے باپ میرے پاس ایسا علم پہنچا ہے جو تمہارے پاس نہیں آیا (مراد اس سے وحی ہے جس میں احتمال غلطی کا ہو ہی نہیں سکتا پس میں جو کچھ کہہ رہا ہوں قطعاً حق ہے جب یہ بات ہے) تو تم میرے کہنے پر چلو میں تم کو سیدھا رستہ بتلاؤں گا (اور وہ توحید ہے) اے میرے باپ تم شیطان کی پرستش مت کرو (یعنی شیطان کو اور اس کی عبادت کو تو تم بھی برا سمجھتے ہو اور بت پرستی میں شیطان پرستی بالیقین لازم ہے کہ وہی یہ حرکت کراتا ہے۔ اور کسی کی ایسی اطاعت کرنا کہ حق تعالیٰ کے مقابلے میں بھی اس کی تعلیم کو حق سمجھے یہی عبادت ہے پس بت پرستی میں شیطان پرستی ہوئی اور) بیشک شیطان (حضرت) رحمان کا نافرمانی کرنے والا ہے (تو وہ کب اطاعت کے لائق ہوگا) اے میرے باپ، میں اندیشہ کرتا ہوں (اور وہ اندیشہ یقینی ہے) کہ تم پر کوئی عذاب نہ آپڑے (خواہ دنیا میں یا آخرت میں) پھر تم (عذاب میں) شیطان کے ساتھی ہوجاؤ (یعنی جب اطاعت میں اس کا ساتھ دو گے تو نفس عقوبت میں بھی اس کا ساتھ ہوگا گو شیطان کو دنیا میں عذاب نہ ہوا اور اس شیطان کی معیت اور مشارکت فی العقوبت کو کوئی اپنی بھلائی چاہنے والا پسند نہ کرے گا۔
ابرہیم ؑ کی یہ تمام تر نصائح سن کر) باپ نے جواب دیا کہ کیا تم میرے معبودوں سے پھرے ہوئے ہو اے ابراہیم (اور اس لئے مجھے بھی منع کرتے ہو یاد رکھو) اگر تم (اب بتوں کی مذمت سے اور مجھ کو ان کی عبادت سے منع کرنے سے) باز نہ آئے تو میں ضرور تم کو مار پتھروں کے سنگسار کر دوں گا (پس تم اس سے باز آجاؤ) اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مجھ (کو کہنے سننے) سے برکنار رہو، ابراہیم ؑ نے کہا (بہتر) میرا سلام لو (اب تم سے کہنا سننا بےسود ہے) اب میں تمارے لئے اپنے رب سے مغفرت کی (اس طرح) درخواست کروں گا (کہ تم کو ہدایت کرے جس پر مغفرت مرتب ہوتی ہے) بیشک وہ مجھ پر بہت مہربان ہے (اس لئے اسی سے عرض کروں گا جس کا قبول فرمانا یا نہ فرمانا دونوں مختلف اعتبار سے رحمت اور مہربانی ہے) اور (تم اور تمہارے مذہب جب میری حق بات کو بھی مانتے تو تم میں رہنا فضول ہے اس لئے) میں تم لوگوں سے اور جن کی تم خدا کو چھوڑ کر عبادت کر رہے ہو ان سے (بدناً بھی) کنارہ کرتا ہوں (جیسا قلباً پہلے ہی سے برکنار ہوں، یعنی یہاں رہتا بھی نہیں) اور (اطمینان سے علیحدہ ہو کر) اپنے رب کی عبادت کروں گا (کیونکہ یہاں رہ کر اس میں بھی مزاحمت ہوگی) امید (یعنی یقین) ہے کہ اپنے رب کی عبادت کر کے محروم نہ رہوں گا (جیسا بت پرست اپنے باطل معبودوں کی عبادت کر کے محروم رہتے ہیں، غرض اس گفتگو کے بعد ان سے اس طرح علیحدہ ہوئے کہ ملک شام کی طرف ہجرت کر کے چلے گئے) پس ان لوگوں سے اور جن کی وہ لوگ خدا کو چھوڑ کر عبادت کرتے تھے ان سے (اس طرح) علیحدہ ہوگئے (تو) ہم نے ان کو اسحاق (بیٹا) اور یعقوب (پوتا) عطا فرمایا (جو کہ رفاقت کے لئے ان کی بت پرست برادری سے بدرجہا بہتر تھے) اور ہم نے (ان دونوں میں) ہر ایک کو نبی بنایا اور ان سب کو ہم نے (طرح طرح کے کمالات دے کر) اپنی رحمت کا حصہ دیا اور (آئندہ نسلوں میں) ہم نے ان کا نام نیک اور بلند کیا (کہ سب تنظیم اور ثناء کے ساتھ ذکر کرتے ہیں اور اسحٰق کے قبل اسماعیل ان ہی صفات کے ساتھ عطا ہوچکے تھے)

معارف و مسائل
صدیق کی تعریف
صِدِّيْقًا نَّبِيًّا، لفظ صدیق بکسر صاد قرآن کا ایک اصطلاحی لفظ ہے اس کے معنے اور تعریف میں علماء کے اقوال مختلف ہیں۔ بعض نے فرمایا کہ جس شخص نے عمر میں کبھی جھوٹ نہ بولا ہو وہ صدیق ہے اور بعض نے فرمایا کہ جو شخص اعتقاد اور قول و عمل ہر چیز میں صادق ہو یعنی جو دل میں اعتقاد ہو ٹھیک وہی زبان پر وہ اور اس کا ہر فعل اور ہر حرکت و سکون اسی اعتقاد اور قول کے تابع ہو۔ روح المعانی اور مظہری وغیرہ میں اسی آخری معنے کو اختیار کیا ہے اور پھر صدیقیت کے درجات متفاوت ہیں۔ اصل صدیق تو نبی و رسول ہی ہوسکتا ہے اور ہر نبی و رسول کے لئے صدیق ہونا وصف لازم ہے مگر اس کا عکس نہیں کہ جو صدیق ہو اس کا نبی ہونا ضروری ہو بلکہ غیر نبی بھی جو اپنے نبی و رسول کے اتباع میں صدق کا یہ مقام حاصل کرلے وہ بھی صدیق کہلائے گا۔ حضرت مریم کو خود قرآن کریم نے امہ صدیقہ کا خطاب دیا ہے حالانکہ جمہور امت کے نزدیک وہ نبی نہیں، اور کوئی عورت نبی نہیں ہو سکتی۔
Top