Maarif-ul-Quran - Maryam : 6
یَّرِثُنِیْ وَ یَرِثُ مِنْ اٰلِ یَعْقُوْبَ١ۖۗ وَ اجْعَلْهُ رَبِّ رَضِیًّا
يَّرِثُنِيْ : میرا وارث ہو وَيَرِثُ : اور وارث ہو مِنْ : سے۔ کا اٰلِ يَعْقُوْبَ : اولادِ یعقوب وَاجْعَلْهُ : اور اسے بنا دے رَبِّ : اے میرے رب رَضِيًّا : پسندیدہ
جو میری جگہ بیٹے اور یعقوب کی اولاد کی، اور کر اس کو اے رب من مانتا
انبیاء ؑ کے مال میں وراثت نہیں چلتی۔
يَّرِثُنِيْ وَيَرِثُ مِنْ اٰلِ يَعْقُوْبَ ، باتفاق جمہور علماء اس جگہ وراثت سے وراثت مالی مراد نہیں، کیونکہ اول تو حضرت زکریا کے پاس کوئی بڑی دولت ہونا ثابت نہیں جس کی فکر ہو کہ اس کا وارث کون ہوگا اور ایک پیغمبر کی شان سے بھی ایسی فکر کرنا بعید ہے اس کے علاوہ صحیح حدیث جس پر صحابہ کرام کا اجماع ثابت ہے اسمیں ہے
ان العلماء ورثۃ الانبیاء وان الانبیاء لم یورثوا دینارا ولا درھما انما ورثوا لعلم فمن اخذہ اخذ بحظ وافر (رواہ احمد و ابوداؤد و ابن ماجہ والترمذی)

ترجمہ بیشک علماء وارث ہیں انبیاء کے کیونکہ انبیاء
علیہم السلام دنیار و درہم کی وراثت نہیں چھوڑتے
بلکہ ان کی وراثت علم ہوتا ہے جس نے علم حاصل
کرلیا اس نے بڑی دولت حاصل کرلی۔
یہ حدیث کتب شیعہ کافی، کلینی وغیرہ میں بھی موجود ہے، اور صحیح بخاری میں حضرت صدیقہ عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
لانورث وماترکنا صدقة
ہم انبیاء کی مالی وراثت کسی کو نہیں ملتی ہم جو مال چھوڑیں وہ صدقہ ہے۔
اور خود اس آیت میں یرثنی کے بعد ویرث من ال یعقوب کا اضافہ اس کی دلیل ہے کہ وراثت مالی مراد نہیں کیونکہ جس لڑکے کی پیدائش کی دعا کی جارہی ہے اس کا آل یعقوب کے لیے مالی وارث بننا بظاہر حال ممکن نہیں کیونکہ آل یعقوب کے وارث ان کے عصبات قریبہ ہوں گے اور وہ وہی موالی ہیں جن کا ذکر اس آیت میں کیا گیا وہ بلاشبہ قرابت وعصوبت میں حضرت یحییٰ ؑ سے اقرب ہیں اقرب کے ہوتے ہوئے عصبہ بعید کو وراثت ملنا اصول وراثت کے خلاف ہے۔
روح المعانی میں کتب شیعہ سے یہ بھی نقل کیا ہے
روی الکلینی فی الکافی عن ابی البختری عن عبداللہ قال ان سلیمان وارث داؤد وان محمدا ورث سلیمان۔
سلیمان ؑ داؤد ؑ کے وارث ہوئے اور محمد ﷺ سیلمان علیہٰ السلام کے وارث ہوئے۔
ؑ یہ ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو حضرت سیلمان ؑ کی مالی وراثت ملنے کا کوئی احتمال و امکان ہی نہیں، مراد اس سے علوم نبوت کی وراثت ہے اس سے معلوم ہوا کہ ورث سلیمن داؤد میں بھی وراثت مالی مراد نہیں۔
Top