Maarif-ul-Quran - Maryam : 71
وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا١ۚ كَانَ عَلٰى رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِیًّاۚ
وَاِنْ : اور نہیں مِّنْكُمْ : تم میں سے اِلَّا : مگر وَارِدُهَا : یہاں سے گزرنا ہوگا كَانَ : ہے عَلٰي : پر رَبِّكَ : تمہارا رب حَتْمًا : لازم مَّقْضِيًّا : مقرر کیا ہوا
اور کوئی نہیں تم میں جو نہ پہنچے گا اس پر ہوچکا یہ وعدہ تیرے رب پر لازم مقرر
وَاِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا، یعنی کوئی انسان مومن یا کافر ایسا نہ رہے گا جس کا ورود جہنم پر نہ ہو ورود سے مراد دخول نہیں بلکہ عبور ہے جیسا کہ ابن مسعود کی ایک روایت میں لفظ مرور بھی آیا ہے۔ اور اگر دخول مراد لیا جاوے تو مومنین متقین کا دخول اس طرح ہوگا کہ جہنم ان کے لئے برد وسلام بن جائے گی ان کو اس کی کوئی تکلیف محسوس نہ ہوگی جیسا کہ حضرت ابو سمیہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی نیک آدمی یا فاجر آدمی باقی نہ رہے گا جو ابتداء جہنم میں داخل نہ ہو مگر اس وقت مومنین متقین کے لئے جہنم برد وسلام بن جائے گی جیسے ابراہیم ؑ کے لئے نار نمرود برد وسلام بنادی گئی تھی۔ اس کے بعد مومنین کے یہاں سے نجات دے کر جنت میں لے جایا جائے گا یہی معنے آیت کے اس اگلے جملے کے ہیں ثُمَّ نُـنَجِّي الَّذِيْنَ اتَّقَوْا یہ مضمون حضرت ابن عباس سے بھی منقول ہے اور قرآن کریم میں جو لفظ ورود کا آیا ہے اگر اس کے معنے دخول کے بھی لئے جاویں تو دخول بطور عبور کے مراد ہوگا اس لئے کوئی تضاد نہیں۔
Top