Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 11
وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ
وَ إِذَا : اور جب قِيلَ : کہاجاتا ہے لَهُمْ : انہیں لَا تُفْسِدُوا : نہ فسا دپھیلاؤ فِي الْأَرْضِ : زمین میں قَالُوْا : وہ کہتے ہیں اِنَّمَا : صرف نَحْنُ : ہم مُصْلِحُوْنَ : اصلاح کرنے والے
اور جب کہا جاتا ہے ان کو فساد نہ ڈالو ملک میں تو کہتے ہیں ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں
چوتھی اور پانچویں آیتوں میں منافقین کا یہ مغالطہ مذکور ہے کہ فساد کو اصلاح سمجھتے اور اپنے آپ کو مصلح کہتے تھے قرآن کریم نے واضح کیا کہ فساد و اصلاح زبانی دعوؤں پر نہیں ہوتے ورنہ کوئی چور ڈاکو بھی اپنے آپ کو مفسد کہنے کو تیار نہیں بلکہ مدارکار اس کام پر ہے جو کیا جارہا ہے وہ فساد ہے تو کرنے والے کو مفسد ہی کہا جائے گا خواہ اس کی نیت فساد کی نہ ہو،
(7) اصلاح و فساد کی تعریف اور مصلح ومفسد کی پہچان
آیات مذکورہ میں گذر چکا ہے کہ جب کوئی ان منافقین سے یہ کہتا کہ اپنے نفاق کے ذریعہ زمین میں فساد نہ پھیلاؤ تو وہ بڑے زور اور تاکید سے کہتے تھے۔ میں لفظ اِنَّماَ جو حصر و انحصار کے لئے بولا جاتا ہے اس کی وجہ سے معنی اس جملہ کے یہ ہیں کہ ہم تو مصلح ہی ہیں یعنی ہمارے کسی عمل کا فساد سے کوئی واسطہ نہیں مگر قرآن کریم نے ان کے جواب میں فرمایا اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَلٰكِنْ لَّا يَشْعُرُوْنَ یعنی یادر کھو کہ یہی لوگ مفسد ہی ہیں مگر ان کو اس کا شعور نہیں،
اس میں دو باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ منافقین کی حرکات حقیقۃً زمین میں فتنہ و فساد پھیلنے کا سبب تھیں دوسری بات یہ کہ منافقین فتنہ و فساد پھیلانے کی نیت اور قصد سے یہ کام نہ کرتے تھے بلکہ ان کو معلوم بھی نہ تھا کہ اس کا نتیجہ فتنہ و فساد ہے جیسا کہ قرآن کی تصریح وَلٰكِنْ لَّا يَشْعُرُوْنَ سے معلوم ہوتا ہے ،
وجہ یہ ہے کہ زمین میں فتنہ و فساد جن چیزوں سے پھیلتا ہے ان میں کچھ تو ایسی چیزیں ہیں جن کو ہر شخص فتنہ و فساد سمجھتا ہے جیسے قتل، غارتگری، چوری، دھوکہ، فریب، اغواء، بدکاری وغیرہ ہر سمجھدار آدمی ان کو شر و فساد سمجھتا ہے اور ہر شریف آدمی ان سے بچتا ہے اور کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جو اپنی ظاہری سطح کے اعتبار سے کوئی فتنہ و فساد نہیں ہوتیں، مگر ان کی وجہ سے انسانوں کے اخلاق برباد ہوتے ہیں اور انسانوں کی اخلاقی گراوٹ سارے فتنوں اور فسادوں کے دروازے کھول دیتی ہے، ان منافقین کا بھی یہی حال تھا کہ چوری، ڈاکہ، بدکاری وغیرہ سے بچتے تھے، اسی لئے بڑے زور سے اپنے مفسد ہونے کا انکار اور مصلح ہونے کا اثبات کیا،
مگر نفاق اور کینہ وحسد اور اس کے ماتحت دشمنوں سے سازشیں، یہ چیزیں انسان کے اخلاق کو ایسا تباہ کردیتی ہیں کہ انسان بہت سے حیوانوں کے سطح سے بھی نیچے آجاتا ہے اور ایسے کام کرنے پر اتر آتا ہے جو کبھی کبھی بھلے مانس سے متصور نہیں ہوتے، اور جب انسان اپنے انسانی اخلاق کھو بیٹھا تو انسانی زندگی کے ہر شعبہ میں فساد ہی فساد آجاتا ہے فساد بھی ایسا عظیم جو نہ درندے جانوروں سے متوقع ہے نہ ڈاکوؤں اور چوروں سے کیونکہ ان کے فساد کو قانون اور حکومت کی طاقت سے روکا جاسکتا ہے مگر قانون جو انسان ہی جاری کرتے ہیں جب انسان انسان نہ رہا تو قانون کی جو گت بنے گی اس کا تماشا آج کھلی آنکھوں ہر شخص ہر محکمہ اور ہر ادارہ میں دیکھتا ہے آج دنیا کا تمدن ترقی پذیر ہے تعلیم وتعلّم کے اداروں کا جال گاؤں گاؤں تک پھیلا ہوا ہے تہذیب کے الفاظ ہر شخص کی زبان پر ہیں قانون سازی کی مجلسوں کا بازار گرم ہے تنقیذ قانون کے بیشمار ادارے اربوں روپے کے خرچ سے قائم ہیں دفتری انتظامات کی بھول بھلیّاں ہے مگر جرائم اور فتنے فساد روز بروز بڑہتے ہی جاتے ہیں وجہ اس کے سوا نہیں کہ کوئی قانون خودکار مشین نہیں ہوتا بلکہ اس کو انسان چلاتے ہیں جب انسان اپنی انسانیت کھو بیٹھا تو پھر اس فساد کا علاج نہ قانون سے ہوسکتا ہے نہ حکومت اور محکموں کے چکر سے اسی لئے انسانیت کے عظیم ترین محسن نبی کریم ﷺ نے اپنی تمام تر توجہ اس پر مرکوز فرمائی ہے کہ انسان کو صحیح معنی میں انسان بنادیں تو پھر فساد و جرائم خودبخود ختم ہوجاتے ہیں نہ پولیس کی زیادہ ضرورت رہتی ہے نہ عدالتوں کے اس پھیلاؤ کی جو دنیا میں پایا جاتا ہے اور جب تک دنیا کے جس حصہ میں آپ کی تعلیمات و ہدایات پر عمل ہوتا رہا دنیا نے وہ امن وامان دیکھا جس کی نظیر نہ پہلے کبھی دیکھی گئی نہ ان تعلیمات کو چھوڑنے کے متوقع ہے،
نبی کریم ﷺ کی تعلیمات پر عمل کی روح ہے اللہ تعالیٰ کا خوف اور قیامت کے حساب کتاب کی فکر اس کے بغیر کوئی قانون و دستور اور کوئی محکمہ اور کوئی مدرسہ اور یونیورسٹی انسان کو جرائم سے باز رکھنے پر مجبور نہیں کرسکتی،
آج کی دنیا میں جن میں جن لوگوں کے ہاتھ میں اختیار کی باگ ہے وہ جرائم کے انسداد کے لئے نئے سے نئے انتظام کو تو سوچتے ہیں مگر اس روح انتظام یعنی خوف خدا سے نہ صرف غفلت برتتے ہیں بلکہ اس کو فنا کرنے کے اسباب مہیا کرتے ہیں جس کا لازمی نتیجہ ہمیشہ یہی سامنے آتا رہتا ہے کہ،
مرض بڑہتا گیا جوں جوں دوا کی
کھلے طور پر فساد مچانے والے چوروں، غارت گروں کا علاج سہل ہے، مگر ان انسانیت فراموش انسانوں کا فساد ہمیشہ برنگ، اصلاح ہوتا ہے وہ کوئی دلچسپ دلفریب اصلاحی اسکیم بھی سامنے رکھ لیتے ہیں اور خالص ذاتی اغراض فاسدہ کو اصلاح کا رنگ دے کر اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ کے نعرے لگاتے رہتے ہیں اسی لئے حق تعالیٰ سُبحانہ نے جہاں فساد سے روکا ہے اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا واللّٰهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ (22: 2) یعنی اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں کہ مفسد کون ہے اور مصلح کون ؟ جس میں اشارہ فرما دیا کہ فساد وصلاح کی اصل حقیقت حق تعالیٰ ہی جانتے ہیں جو دلوں کے حال اور نیتوں سے بھی واقف ہیں اور ہر عمل کے خواص و نتائج کو بھی جانتے ہیں کہ اس کا نتیجہ صلاح ہوگا یا فساد اس لئے اصلاح کے لئے صرف نیت اصلاح کافی نہیں بلکہ عمل کا رخ بھی شریعت کے مطابق صحیح ہونا ضروری ہے بعض اوقات کوئی عمل پوری نیک نیتی اور اصلاح کے قصد سے کیا جاتا ہے مگر اس کا اثر فساد وفتنہ ہوتا ہے۔
Top