Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 22
الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّ السَّمَآءَ بِنَآءً١۪ وَّ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخْرَجَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ١ۚ فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا وَّ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
الَّذِیْ جَعَلَ
: جس نے بنایا
لَكُمُ
: تمہارے لئے
الْاَرْضَ
: زمین
فِرَاشًا
: فرش
وَالسَّمَآءَ
: اور آسمان
بِنَاءً
: چھت
وَاَنْزَلَ
: اور اتارا
مِنَ السَّمَآءِ
: آسمان سے
مَاءً
: پانی
فَاَخْرَجَ
: پھر نکالے
بِهٖ
: اس کے ذریعے
مِنَ
: سے
الثَّمَرَاتِ
: پھل
رِزْقًا
: رزق
لَكُمْ
: تمہارے لئے
فَلَا تَجْعَلُوْا
: سو نہ ٹھہراؤ
لِلّٰہِ
: اللہ کے لئے
اَنْدَادًا
: کوئی شریک
وَّاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
: اور تم جانتے ہو
جس نے بنایا واسطے تمہارے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت اور اتارا آسمان سے پانی پھر نکالے اسے میوے تمہارے کھانے کے واسطے سو نہ ٹھہراؤ سو نہ ٹھہراؤ کسی کو اللہ کے مقابل اور تم تو جانتے ہو
کائنات زمین و آسمان میں قدرت حق کے مظاہر
پھر دوسری آیت میں رب کی دوسری صفات کا بیان اس طرح فرمایا گیا ہےالَّذِىْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَاۗءَ بِنَاۗءً وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَخْرَجَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ یعنی رب وہ ذات ہے جس نے بنایا تمہارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت اور برسایا آسمان سے پانی پھر اس پانی کے ذریعہ پردہ عدم سے نکالی پھلوں کی غذا تمہارے لئے،
پہلی نعمت
اس سے پہلی آیت میں ان انعامات کا ذکر تھا جو انسان کی ذات سے متعلق ہیں اور اس آیت میں آیت میں ان انعامات کا ذکر ہے جو انسان کے گرد وپیش کی چیزوں سے متعلق ہیں یعنی پہلی آیت میں انفسی اور دوسری میں آفاقی نعمتوں کا ذکر فرما کر تمام اقسام نعمت کا احاطہ فرمایا گیا۔
ان آفاقی نعمتوں میں سے زمین کی پیدائش کا ذکر ہے کہ اس کو انسان کے لئے فرش بنادیا نہ پانی کی طرح نرم ہے جس پر قرار نہ ہو سکے اور نہ لوہے پتھر کی طرح سخت ہے کہ ہم اسے اپنی ضرورت کے مطابق آسانی سے استعمال نہ کرسکیں بلکہ نرمی اور سختی کے درمیان ایسا بنایا گیا جو عام انسانی ضروریات زندگی میں کام دے سکے۔
فراش کے لفظ سے یہ لازم نہیں آتا کہ زمین گول نہ ہو کیونکہ زمین کا یہ عظیم الشان کرہ گول ہونے کے باوجود دیکھنے میں ایک سطح نظر آتا ہے اور قرآن کا عام طرز یہی ہے کہ ہر چیز کی وہ کیفیت بیان کرتا ہے جس کو ہر دیکھنے والا عالم، جاہل، شہری، دیہاتی سمجھ سکے،
دوسری نعمت یہ ہے کہ آسمان کو ایک مزیّن اور نظر فریب چھت بنادیا تیسری نعمت یہ ہے کہ آسمان سے پانی برسایا پانی آسمان سے برسانے کے لئے ضروری نہیں کہ بادل کا واسطہ درمیان میں نہ ہو بلکہ محاورات میں ہر اوپر سے آنے والی چیز کو آسمان سے آنا بولتے ہیں۔
خود قرآن کریم نے متعدد مقامات میں بادلوں سے پانی برسانے کا ذکر فرمایا ہے مثلاً ارشاد ہے ءَاَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْهُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَ (واقعہ69) کیا بارش کا پانی سفید بادلوں سے تم نے اتارا ہے یا ہم اس کے اتارنے والے ہیں،
دوسری جگہ ارشاد ہے،
وَّاَنْزَلْنَا مِنَ الْمُعْــصِرٰتِ مَاۗءً ثَجَّاجًا (نباء14) ہم نے اتارا پانی بھرے ہوئے بادلوں سے پانی کا ریلا۔
پروردگار عالم کی چار مذکورہ صفات میں سے پہلی تین باتیں تو ایسی ہیں کہ ان میں انسان کی سعی وعمل تو کیا خود اس کے وجود کو بھی دخل نہیں بیچارے انسان کا نام ونشان بھی نہ تھا جب زمین اور آسمان پیدا ہوچکے تھے اور بادل اور بارش اپنا کام کررہے تھے ان کے متعلق تو کسی بیوقوف جاہل کو بھی یہ شبہ نہیں ہوسکتا کہ یہ کام سوائے حق جل شانہ کے کسی انسان یا بت یا کسی اور مخلوق نے کئے ہوں گے، ہاں زمین سے پھل اور پھلوں سے انسانی غذا نکالنے میں کسی سادہ لوح اور سطحی نظر رکھنے والے کو یہ شبہ نہیں ہوسکتا کہ یہ انسانی سعی وعمل اور اس کی دانشمندانہ تدبیروں کا نتیجہ ہیں کہ وہ زمین کو نرم کرنے اور کمانے میں پھر بیج ڈالنے اور جمانے میں پھر اس کی تربیت اور حفاظت میں اپنی محنت خرچ کرنا ہے لیکن قرآن کریم نے دوسری آیات میں اس کو بھی صاف کردیا کہ انسان کی سعی اور محنت کو درخت اگانے یا پھل نکالنے میں قطعاً کوئی دخل نہیں بلکہ اس کی ساری تدبیروں اور محنتوں کا حاصل رکاوٹوں کو دور کرنے سے زیادہ کچھ نہیں یعنی انسان کا کام صرف اتنا ہی ہے کہ پیدا ہونے والے درخت کی راہ سے رکاوٹیں دور کرے اور بس۔
غور کیجئے کہ زمین کا کھودنا، اس میں ہل چلانا، اس میں سے جھاڑ جھنکاڑ کو دور کرنا، اس میں کھاد ڈال کر زمین کو نرم کرنا جو کاشتکاروں کا ابتدائی کام ہے اس کا حاصل اس کے سوا کیا ہے کہ بیج یا گٹھلی کے اندر سے جو نازک کونپل قدرت خداوندی سے نکلے گی زمین کی سختی یا کوئی جھاڑ جھنکاڑ اس کی راہ میں حائل نہ ہوجائیں بیچ میں سے کونپل نکالنے اور اس میں پھول پتّیاں پیدا کرنے میں اس بیچارے کا شتکار کی محنت کا کیا دخل ہے،
اسی طرح کاشتکار کا دوسرا کام زمین میں بیج ڈالنا پھر اس کی حفاظت کرنا پھر جو کونپل نکلے اس کی سردی گرمی اور جانوروں سے حفاظت کرنا ہے اس کا حاصل اس کے سوا کیا ہے کہ قدرت خداوندی سے پیدا ہونے والے کونپلوں کو ضائع ہونے سے بچایا جائے ان سب کاموں کو کسی درخت کے نکلنے یا پھلنے پھولنے میں بجز رفع موانع کے اور کیا دخل ہے ؟ ہاں پانی سے جمنے والے بیج کی اور اس سے نکلنے والے درخت کی غذا تیار ہوتی ہے اور اسی سے وہ پھلتا پھولتا ہے لیکن پانی کاشتکار کا پیدا کیا ہوا نہیں اس میں بھی کاشتکار کا کام صرف اتنا ہے کہ قدرت کے پیدا کئے ہوئے پانی کو قدرت ہی کے پیدا کئے ہوئے درخت تک ایک مناسب وقت میں اور مناسب مقدار میں پہنچادے،
آپ نے دیکھ لیا کہ درخت کی پیدائش اور اس کے پھلنے پھولنے میں اوّل سے آخر تک انسان کی محنت اور تدبیر کا اس کے سوا کوئی اثر نہیں کہ نکلنے والے درخت کے راستے سے روڑے ہٹادے یا اس کو ضائع ہونے سے بچالے باقی رہی درخت کی پیدائش اس کا بڑہنا اس میں پتے اور شاخیں پھر پھول اور پھل پیدا کرنا سو اس میں سوائے خدا تعالیٰ کی قدرت کے اور کسی کا کوئی دخل نہیں،
اَفَرَءَيْتُمْ مَّا تَحْرُثُوْنَ ءَاَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَهٗٓ اَمْ نَحْنُ الزّٰرِعُوْنَ (واقعہ 64: 63) بتلاؤ جو کچھ تم بوتے ہو اسے تم اگاتے ہو ؟ یا ہم اگانے والے ہیں،
قرآن کے اس سوال کا جواب انسان کے پاس بجز اس کے اور کیا ہے کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہی ان سب درختوں کو اگانے والے ہیں،
اس تفصیل سے یہ واضح ہوگیا کہ جس طرح زمین اور آسمان کی پیدائش اور برق و باراں کے منظم سلسلہ میں انسانی سعی و محنت کا کوئی دخل نہیں اسی طرح کھیتی اور درختوں کے پیدا ہونے اور ان سے پھول پھل نکلنے اور ان سے انسان کی غذائیں تیار ہونے میں بھی اس کا دخل صرف برائے نام ہے اور حقیقت میں یہ سب کاروبار صرف حق تعالیٰ کی ایسی چار صفات کا بیان ہے جو سوائے اس کے اور کسی مخلوق میں پائی ہی نہیں جاسکتیں اور جب ان دونوں آیتوں سے یہ معلوم ہوگیا کہ انسان کو عدم سے وجود میں لانا اور پھر اس کی بقاء و ترقی کے سامان زمین اور آسمان بارش اور پھل پھول کے ذریعے مہیا کرنا سوائے ذات حق جل شانہ کے اور کسی کا کام نہیں تو ہر ادنٰی سمجھ بوجھ رکھنے والے انسان کو اس پر یقین کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا کہ عبادت و اطاعت کے لائق اور مستحق بھی صرف وہی ذات ہے اور اس سے بڑا کوئی ظلم نہیں کہ انسان کے بود و وجود اور اس کے بقاء وارتقاء کے سارے سامان تو اللہ تعالیٰ پیدا کرے اور غافل انسان دوسروں کی چوکھٹوں پر سجدہ کرتا پھرے دوسری چیزوں کی بندگی میں مشغول ہوجائے مولانا رومی نے اسی غافل انسان کی زبان پر فرمایا ہے۔
نعمت راخوردہ عصیاں میکنم
نعمت ازتومن بغیرے می تنم
اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی ساری مخلوقات کا سردار اس لئے بنایا تھا کہ ساری کائنات اس کی خدمت کرے اور یہ صرف کائنات کی خدمت اور عبادت میں مشغول رہے اور کسی کی طرف نظر نہ رکھے اس کا یہ رنگ ہوجائے،
بگذارزیادگل وگلبن کہ ہیچم یاد نیست
درزمین و آسمان جزذکر حق آباد نیست
لیکن غافل انسان نے اپنی حماقت سے اللہ تعالیٰ ہی کو بھلا دیا تو اسے ایک خدا کی غلامی کے بجائے ستر کروڑ دیوتاؤں کی غلامی کرنا پڑی،
ایک در چھوڑ کے ہم ہوگئے لاکھوں کے غلام
ہم نے آزادی عرفی کا نہ سوچا انجام
اسی غیروں کی غلامی سے نجات دلانے کے لئے اس آیت کے آخر میں حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا وَّاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ اب تو مت ٹھراؤ اللہ کا مقابل اور تم تو جانتے بوجھتے ہو یعنی جب تم نے یہ جان لیا کہ تم کو نیست سے ہست کرنے والا تمہاری تربیت اور پرورش کے سارے سامان مہیا کرکے ایک قطرہ سے حسین و جمیل حساس اور عاقل انسان بنانے والا تمہارے رہن سہن کے لئے اور دوسری ضروریات کے لئے آسمان بنانے والا آسمان سے پانی برسانے والا پانی سے پھل اور پھل سے غذا مہیا کرنے والا بجز حق تعالیٰ کے کوئی نہیں تو عبادت و بندگی کا مستحق دوسرا کون ہوسکتا ہے کہ اس کو خدا کا مقابل یا سہیم وشریک ٹھہرایا جائے اگر ذرا بھی غور کیا جائے تو اس جہان میں اس سے بڑھ کر کوئی ظلم اور بیوقوفی وبے عقلی نہیں ہوسکتی کہ خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر مخلوق سے دل لگایا جائے اور اس پر بھروسہ کیا جائے۔
آنانکہ بجز روی تو جائے نگرانند
کو تہ نظرانندچہ کو تہ نظرانند
خلاصہ یہ ہے کہ ان دونوں آیتوں میں اس چیز کی دعوت دی گئی ہے جو آسمانی کتابوں کے اور تمام انبیاء کے بھیجنے کا اصل مقصد ہے یعنی صرف ایک خدا کی عبادت و بندگی جس کا نام توحید ہے اور یہ وہ انقلابی نظریہ ہے جو انسان کے تمام اعمال و احوال اور اخلاق ومعاشرت پر گہرا اثر رکھتا ہے کیونکہ جو شخص یہ دیقین کرے کہ تمام عالم کا خالق ومالک اور تمام نظام عالم میں متصرف اور تمام چیزوں پر قادر صرف ایک ذات ہے بغیر اس کی مشیت اور ارادے کے نہ کوئی ذرّہ حرکت کرسکتا ہے نہ کوئی کسی کو نفع یا نقصان پہنچا سکتا ہے تو اس کی پوری توجہ ہر مصیبت و راحت اور ہر تنگی وفراخی میں صرف ایک ذات کی طرف ہوجائے گی اور اس کو وہ بصیرت حاصل ہوجائے گی جس کے ذریعہ وہ اسباب ظاہرہ کی حقیقت کو پہچان لے گا کہ یہ سلسلہ اسباب درحقیقت ایک پردہ ہے جس کے پیچھے دست قدرت کارفرما ہے،
برق اور بھاپ کے پوجنے والے دانایان یورپ اگر اس حقیقت کو سمجھ لیں تو انھیں معلوم ہوجائے کہ برق اور بھاپ سے آگے بھی کوئی ہے اور حقیقی پاور اور طاقت نہ برق میں ہے نہ بھاپ پیدا کئے اس کو سمجھنے کے لئے بصیرت چاہئے اور جس نے اس حقیقت کو نہیں سمجھا وہ دنیا میں کتنا ہی دانشمند وفلاسفر کہلاتا ہو مگر اس کی مثال اس دیہاتی بیوقوف کی سی ہے جو کسی ریلوے اسٹیشن پر پہنچا اور دیکھا کہ گارڈ کے ہاتھ میں دو جھنڈیوں سرخ اور سبز ہیں سبز کے دکھلانے سے ریل چلنے لگتی ہے اور سرخ جھنڈی دکھلانے سے ریل تھم جاتی ہیں یہ دیکھ کر وہ ان جھنڈیوں ہی ڈنڈوت کرنے لگے اور سمجھنے کہ یہ جھنڈیاں ہی طاقت کی مالک ہیں کہ اتنی بڑی تیز رفتار پہاڑ کی طرح بوجھل گاڑی کو چلانا اور روکنا ان کا کام ہے جس طرح دنیا اس دیہاتی پر ہنستی ہے کہ اس جاہل کو یہ خبر نہیں مشین کا کل پرزوں کا ہے اور جس نے ذرا نگاہ کو اور گہرا کرلیا تو اسے یہ نظر آجاتا ہے کہ درحقیقت اس کا چلانا نہ ڈرائیور کا کام ہے نہ انجن کے کل پرزوں کا بلکہ اصل طاقت اس اسٹیم کی ہے جو انجن کے اندر پیدا ہو رہی ہے اسی طرح ایک موحد انسان ان سب عقلمندوں پر ہنستا ہے کہ حقیقت کو تم نے بھی نہیں پایا فکر و نظر کی منزل ابھی اور آگے ہے ذرا نگاہ کو تیز کرو اور غور سے کام لو تو معلوم ہوگا کہ اسٹیم اور آگ وپانی بھی کچھ نہیں طاقت وقوت صرف اسی ذات کی ہے جس نے آگ اور پانی پیدا کئے ہیں اور اسی کی مشیت وامر کے ماتحت یہ سب چیزیں اپنی ڈیوٹی ادا کر رہی ہیں،
خاک وباد وآب وآتش بندہ اند
بامن وتومردہ باحق زندہ اند
Top