Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 230
فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗ١ؕ فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ اَنْ یَّتَرَاجَعَاۤ اِنْ ظَنَّاۤ اَنْ یُّقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ١ؕ وَ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ یُبَیِّنُهَا لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ
فَاِنْ : پھر اگر طَلَّقَھَا : طلاق دی اس کو فَلَا تَحِلُّ : تو جائز نہیں لَهٗ : اس کے لیے مِنْ بَعْدُ : اس کے بعد حَتّٰي : یہانتک کہ تَنْكِحَ : وہ نکاح کرلے زَوْجًا : خاوند غَيْرَهٗ : اس کے علاوہ فَاِنْ : پھر اگر طَلَّقَھَا : طلاق دیدے اس کو فَلَاجُنَاحَ : تو گناہ نہیں عَلَيْھِمَآ : ان دونوں پر اَنْ : اگر يَّتَرَاجَعَآ : وہ رجوع کرلیں اِنْ : بشرطیکہ ظَنَّآ : وہ خیال کریں اَنْ : کہ يُّقِيْمَا : وہ قائم رکھیں گے حُدُوْدَ اللّٰهِ : اللہ کی حدود وَتِلْكَ : اور یہ حُدُوْدُ اللّٰهِ : اللہ کی حدود يُبَيِّنُھَا : انہیں واضح کرتا ہے لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ : جاننے والوں کے لیے
پھر اگر اس عورت کو طلاق دی (یعنی تیسری بار) تو اب حلال نہیں اس کو وہ عورت اسکے بعد جب تک نکاح نہ کرلے کسی خاوند سے اس کے سوا پھر اگر طلاق دے دے دوسرا خاوند تو کچھ گناہ نہیں ان دونوں پر کہ باہم مل جاویں اگر خیال کریں کہ قائم رکھیں گے اللہ کا حکم اور یہ حدیں باندھی ہوئی ہیں اللہ کی بیان فرماتا ہے ان کو واسطے جاننے والوں کے
یہ مسئلہ ضمنی بیان فرمانے کے بعد پھر تیسری طلاق کا ذکر اس طرح فرمایافَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰي تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ یعنی اگر اس شخص نے تیسری طلاق بھی دے ڈالی (جو شرعا پسندیدہ نہ تھی) تو اب نکاح کا معاملہ بالکلیہ ختم ہوگیا اس کو رجعت کرنے کا کوئی اختیار نہ رہا اور چونکہ اس نے شرعی حدود سے تجازو کیا کہ بلاوجہ تیسری طلاق دے دیتو اس کی سزا یہ ہے کہ اب اگر یہ دونوں راضی ہو کر پھر آپس میں نکاح کرنا چاہیں تو بھی نہیں کرسکتے اب ان کے آپس میں دوبارہ نکاح کے لئے شرط یہ ہے کہ یہ عورت (عدت طلاق پوری کرکے) کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے اور حقوق زوجیت ادا کرکے دوسرے شوہر کے ساتھ رہے پھر اگر اتفاق سے وہ دوسرا شوہر بھی طلاق دیدے (یا مرجائے) تو اس کی عدت پوری کرنے کے بعد پہلے شوہر سے نکاح ہوسکتا ہے آیت کے آخری جملے فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَاجُنَاحَ عَلَيْھِمَآ اَنْ يَّتَرَاجَعَآ کا یہی مطلب ہے۔
تین طلاق اور اس کے بعد احکام کی تفصیل
یہاں قرآن کریم کے اسلوب بیان پر غور کرنے سے یہ بات پوری وضاحت کے ساتھ سامنے آجاتی ہے کہ طلاق دینے کا اصل شرعی طریقہ یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ دو طلاق تک پہنچا جائے، تیسری طلاق تک نوبت پہونچانا مناسب نہیں الفاظ آیت الطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ کے بعد تیسری طلاق کو حرف ان کے ساتھ فَاِنْ طَلَّقَھَا فرمانے میں اس کی طرف اشارہ موجود ہے ورنہ سیدھی تعبیر یہ تھی کہ الطَّلَاقُ ثَلٰثٌ کہا جاتا اس کو چھوڑ کر یہ تعبیر اختیار کرنے میں واضح اشارہ ہے کہ تیسری طلاق تک پہنچنا نہیں چاہئے یہی وجہ ہے کہ امام مالک اور بہت سے فقہاء نے تیسری طلاق کی اجازت ہی نہیں دی وہ اس کو طلاق بدعت کہتے ہیں، اور دوسرے فقہاء نے تین طلاق کو صرف اس شرط کے ساتھ جائز قرار دیا ہے کہ الگ الگ تین طہروں میں تین طلاقیں دی جائیں ان فقہاء کی اصطلاح میں اس کو بھی طلاق سنت کے لفظ سے تعبیر کردیا گیا ہے مگر اس کا یہ مطلب کسی کے نزدیک نہیں ہے کہ اس طرح تین طلاقیں دینا مسنون اور محبوب ہے بلکہ طلاق بدعت کے مقابلے میں اس کو طلاق سنت اس معنی سے کہہ دیا گیا کہ یہ صورت بھی بدعت میں داخل نہیں۔
قرآن وسنت کے ارشادات اور تعامل صحابہ کرام ؓ اجمعین وتابعین سے عدد طلاق کے متعلق جو کچھ ثابت ہوتا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب طلاق دینے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں رہے تو طلاق کا احسن طریقہ یہ ہے کہ صرف ایک طلاق حالت طہر میں دیدے جس میں مجامعت نہ کی ہو اور یہ ایک طلاق دے کر چھوڑ دے عدت ختم ہونے کے ساتھ رشتہ نکاح خود ٹوٹ جائے گا اس کو فقہاء نے طلاق احسن کہا ہے، اور حضرات صحابہ کرام ؓ اجمعین نے اسی کو طلاق کا بہتر طریق قرار دیا ہے۔
ابن ابی شیبہ نے اپنے مصنف میں حضرت ابراہیم نخعی سے نقل کیا ہے کہ صحابہ کرام ؓ اجمعین طلاق دینے میں اس کو پسند کرتے تھے کہ صرف ایک طلاق دے کر چھوڑ دی جائے اور عدت طلاق تین حیض پورے ہونے دیئے جائیں تاکہ عورت آزاد ہوجائے۔
قرآن کریم کے الفاظ مذکورہ سے اس کی بھی اجازت نکلتی ہے کہ دو طلاق تک دے دیجائیں مگر مَرَّتٰانِ کے لفظ میں اس طرف اشارہ فرما دیا گیا ہے کہ دو طلاق بیک لفظ وبیک وقت نہ ہوں بلکہ دو طہروں میں الگ الگ ہوں الطَّلَاقُ طَلَاقاَنِ سے بھی طلاق کی اجازت ثابت ہوسکتی تھی مگر مَرَّتٰنِ ایک ترتیب وتراخی کی طرف مشیر ہے جس سے مستفاد ہوتا ہے کہ دو طلاقیں ہوں تو الگ الگ ہوں مثال سے یوں سمجھئے کہ کوئی شخص کسی کو دو روپیہ ایک دفعہ دیدے تو اس کو دو مرتبہ دینا نہیں کہتے، الفاظ قرآن میں دو مرتبہ دینے کا مقصد یہی ہے کہ الگ الگ طہر میں دو طلاق دی جائیں (روح المعانی)
بہرحال دو طلاقوں تک قرآن حکیم کے الفاظ سے ثابت ہے اس لئے باتفاق ائمہ وفقہاء یہ طلاق سنت میں داخل ہے یعنی بدعت نہیں، تیسری طلاق کے غیر مستحسن ہونے کی طرف تو خود اسلوب قرآن میں واضح اشارہ پایا جاتا ہے اس کے غیر مستحسن ہونے میں کسی کا بھی اختلاف نہیں اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے ایک ارشاد سے تیسری طلاق کا مبغوض و مکروہ ہونا ثابت ہوتا ہے امام نسائی نے بروایت محمود بن لبید نقل کیا ہے
اخبر رسول اللہ ﷺ عن رجل طلق امرأتہ ثلاث تطلیقات جمیعا فقام غضباناً ثم قال ایلعب بکتاب اللہ وانا بین اظہرکم حتیٰ قام رجل وقال یا رسول اللہ الا اقتلہ (نسائی کتاب الطلاق ص 98 جلد 2) رسول اللہ ﷺ کو ایک آدمی کے متعلق خبر دی گئی جس نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دی تھی آپ غصہ ہو کر کھڑے ہوگئے اور فرمایا کیا اللہ کی کتاب کیساتھ کھیل کیا جاتا ہے حالانکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں، اتنے میں ایک آدمی کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا اے اللہ کے رسول کیا میں اس کو قتل نہ کردوں ؟
اس حدیث کی اسناد کو حافظ ابن قیم نے صحیح علیٰ شرط مسلم قرار دیا ہے (زاد المعاد) اور جوہر نقی میں علامہ ماوردی نے اس حدیث کی سند کو صحیح اور ابن کثیر نے اسناد جید، ابن حجر نے رواتہ موثقون فرمایا ہے۔
اسی بناء پر حضرت امام مالک اور بعض دوسرے ائمہ فقہاء نے تیسری طلاق کو مطلقا ناجائز اور طلاق بدعت قرار دیا ہے دوسرے ائمہ نے تین طہروں میں تین طلاقوں کو اگرچہ طلاق سنت میں داخل کہہ کر طلاق بدعت سے نکال دیا ہے مگر اس کے غیر مستحسن ہونے میں کسی کو اختلاف نہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ شریعت اسلام نے جو طلاق کے تین درجے تین طلاقوں کی صورت میں رکھے ہیں اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان تینوں درجوں کو عبور کرنا ضروری یا بہتر ہے بلکہ منشاء شریعت کا تو یہ ہے کہ اول تو طلاق پر اقدام ہی ایک مبغوض و مکروہ فعل ہے اگر بمجبوری اس اقدام کی نوبت آجائے تو اس کے کم سے کم درجے یعنی ایک طلاق پر اکتفاء کیا جائے اور عدت گذرنے دیں تو عدت ختم ہوتے ہی یہی ایک طلاق رشتہ زوجیت قطع کرنے کے لئے کافی ہوجائے گی اور عورت آزاد ہو کر دوسرے شخص سے نکاح کرسکے گی یہی طریقہ طلاق احسن کہلاتا ہے اس طریقہ میں یہ حکمت اور فائدہ بھی ہے کہ صریح الفاظ طلاق سے ایک طلاق دینے کی صورت میں طرفین کے لئے مصالحت کی راہیں کھلی رہیں گی عدت ختم ہونے سے پہلے پہلے تو صرف طلاق سے رجوع کرلینا بقاء نکاح کے لئے کافی ہوگا اور عدت ختم ہوجانے کے بعد اگرچہ نکاح ٹوٹ چکے گا اور عورت آزاد ہوجائے گی مگر پھر بھی یہ گنجائش باقی رہے گی کہ اگر دونوں میں اب مصالحت ہوجائے اور باہم نکاح کرنا چاہیں تو نکاح جدید اسی وقت ہوسکتا ہے۔
لیکن اگر کوئی شخص اس طلاق احسن کے طریقے پر اکتفاء نہ کرے دوران عدت میں مزید ایک طلاق صریح اور صاف لفظوں میں دیدے تو اس نے قطع نکاح کے دو درجے طے کرلئے جس کی ضرورت نہ تھی اور ایسا کرنا شرعا پسندیدہ بھی نہ تھا مگر بہرحال دو درجے طے ہوگئے مگر ان دو درجوں کے طے ہوجانے تک بھی بات وہیں رہی کہ دوران عدت میں رجعت کا اختیار باقی ہے اور عدت ختم ہوجانے کے بعد بتراضی طرفین نکاح جدید ہوسکتا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ دو طلاق تک پہنچنے میں شوہر نے اپنے اختیارات کی ایک کڑی اور توڑ ڈالی اور اس سرحد پر پہنچ گیا کہ اگر اب ایک مرتبہ بھی طلاق دیدے تو معاملہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے۔
جس شخص نے یہ دو درجے طلاق کے طے کرلئے اس کے لئے آگے یہ ہدایت دی گئی فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِيْحٌۢ بِاِحْسَانٍ اس میں فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ کے لفظوں میں دو حکم بتلائے گئے اول یہ کہ عدت کے دوران رجعت کرلینا نکاح جدید کا محتاج نہیں بلکہ صرف امساک یعنی طلاق سے رجعت کرکے روک لینا کافی ہے اگر ایسا کرلیا تو سابق نکاح ہی کی بنیاد پر تعلق زوجیت بحال ہوجائے گا۔
دوسرے اس میں شوہر کو یہ ہدایت دی گئی کہ اگر اس کا ارادہ اصلاح حال اور صلح و صفائی کے ساتھ زندگی گذارنے کا ہے تب تو رجعت پر اقدام کرے ورنہ چھوڑ دے کہ عدت گذر کر تعلق زوجیت ختم ہوجائے ایسا نہ ہو کہ بغیر ارادہ اصلاح کے محض عورت کو پریشان کرنے کے لئے رجعت کرے۔
اسکے بالمقابل اَوْ تَسْرِيْحٌۢ بِاِحْسَانٍ فرمایا تسریح کے معنے کھول دینے اور چھوڑ دینے کے ہیں اس سے اشارہ کردیا کہ قطع تعلق کے لئے کسی مزید طلاق یا دوسرے کسی عمل کی ضرورت نہیں بغیر رجعت کے عدت ختم ہوجانا ہی تعلقات زوجیت ختم کرنے کے لئے کافی ہے۔ امام حدیث ابوداؤد نے بروایت ابو رزین اسدی نقل کیا ہے کہ اس آیت کے نزول پر ایک شخص نے آنحضرت ﷺ سے دریافت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے الطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ فرمایا تیسری طلاق کا یہاں کیوں ذکر نہیں کیا ؟ آپنے فرمایا کہ اَوْ تَسْرِيْحٌۢ بِاِحْسَانٍ جو بعد میں مذکور ہے وہی تیسری طلاق ہے، (روح المعانی) مطلب اس کا جمہور علماء کے نزدیک یہ ہے کہ جو کام تعلقات زوجیت کے کلی انقطاع کا تیسری طلاق سے ہوتا وہی کام اس طرز عمل سے ہوجائیگا کہ عدت کے اندر رجعت نہ کرے اور جس طرح فَاِمْسَاكٌۢ کے ساتھ بِمَعْرُوْفٍ کی قید لگا کر یہ ہدایت فرمادی کی رجعت کرکے بیوی کو روکا جائے تو حسن سلوک کے ساتھ روکا جائے اسی طرح تَسْرِيْحٌۢ کے ساتھ بِاِحْسَانٍ کی قید لگا کر یہ ہدایت دے دی کہ طلاق ایک معاملہ کا فسخ ہے شریف انسان کا کام یہ ہے کہ جس طرح معاملہ اور معاہدہ خوش دلی اور حسن سلوک کے ساتھ کیا جاتا ہے اسی طرح اگر فسخ معاہدہ کی ضرورت پیش آجائے تو اس کو بھی غصہ یا لڑائی جھگڑے کے ساتھ نہ کریں بلکہ وہ بھی احسان و سلوک کے ساتھ کریں کہ رخصت کے وقت مطلقہ بیوی کو کچھ تحفہ کپڑے وغیرہ دے کر رخصت کریں جس کا ذکر قرآن کریم کی دوسری آیت میں ہے مَتِّعُوْھُنَّ ۚ عَلَي الْمُوْسِعِ قَدَرُهٗ وَعَلَي الْمُقْتِرِ قَدَرُهٗ (236: 2) یعنی مطلقہ بیوی کو کچھ جوڑا کپڑے کا دے کر رخصت کریں مالی حیثیت کے مطابق۔
اور اگر اس نے اس پر بھی ایسا نہ کیا بلکہ تیسری طلاق بھی دے ڈالی تو اب اس نے اپنے سارے اختیارات شریعت کی دی ہوئی آسانیوں کو نظر انداز کرکے بلاوجہ اور بلا ضرورت ختم کردیئے تو اب اس کی سزا یہ ہے کہ نہ رجعت ہوسکے اور نہ بغیر دوسری شادی کے آپس میں نکاح ہوسکے۔
اگر کسی نے غیر مستحسن یا غیر مشروع طریقہ سے تین طلاق دے دیتو اس کا اثر کیا ہوگا ؟
اس کا جواب عقلی اور عرفی طور پر تو یہی ہے کہ کسی فعل کا جرم و گناہ اس کے مؤ ثر ہونے میں کہیں بھی مانع نہیں ہوتا قتل ناحق جرم و گناہ ہے مگر جس کو گولی یا تلوار مار کر قتل کیا گیا ہے وہ تو قتل ہو ہی جاتا ہے اس کی موت تو اس کا انتظار نہیں کرتی کہ یہ گولی جائز طریقہ سے ماری گئی ہے یا ناجائز طریقہ سے، چوری کرنا باتفاق مذاہب جرم و گناہ ہے مگر جو مال اس طرح غائب کردیا گیا وہ تو ہاتھ سے نکل ہی جاتا ہے اسی طرح تمام معاصی اور جرائم کا یہی حال ہے کہ ان کا جرم و گناہ ہونا ان کے مؤ ثر ہونے میں مانع نہیں ہوتا۔
اس اصول کا مقتضیٰ یہی ہے کہ شریعت کی دی ہوئی آسانیوں کو نظر انداز کرنا اور بلاوجہ اپنے سارے اختیارات طلاق کو ختم کرکے تین طلاق تک پہنچنا اگرچہ رسول اللہ ﷺ کی ناراضی کا سبب ہوا جیسا کہ سابقہ روایت میں لکھا جاچکا ہے اور اسی لئے جمہور امت کے نزدیک یہ فعل غیر مستحسن اور بعض کے نزدیک ناجائز ہے مگر ان سب باتوں کے باوجود جب کسی نے ایسا اقدام کرلیا تو اس کا وہی اثر ہونا چاہئے جو جائز طلاق کا ہوتا یعنی تین طلاق واقع ہوجائیں اور رجعت ہی کا اختیار نہیں نکاح جدید کا اختیار بھی سلب ہوجائے۔
اور رسول اللہ ﷺ کا فیصلہ اس پر شاہد ہے کہ اظہار غضب کے باوجود آپ نے تینوں طلاقوں کو نافذ فرمایا جس کے بہت سے واقعات کتب حدیث میں مذکور ہیں اور جن علماء نے اس مسئلہ پر مستقل کتابیں لکھی ہیں ان میں ان واقعات کو جمع کردیا ہے، حال میں مولانا ابوالزاہد محمد سرفراز صاحب کی کتاب عمدۃ الاثاث بھی اس مسئلہ پر شائع ہوگئی ہے جو بالکل کافی ہے یہاں صرف دو تین حدیثیں نقل کی جاتی ہیں۔
محمود بن لبید کی روایت جو بحوالہ نسائی اوپر لکھی گئی ہے اس میں تین طلاقیں بیک وقت دینے پر انتہائی ناراضگی کا اظہار تو منقول ہے یہاں تک کہ بعض صحابہ کرام ؓ اجمعین نے اس شخص کو مستوجب قتل سمجھا مگر یہ کہیں منقول نہیں کہ آپ نے اس کی طلاق کو ایک رجعی قرار دے کر بیوی اس کے حوالے کردی ہو۔
بلکہ دوسری روایت جو آگے آتی ہے جس طرح اس میں اس کی تصریح موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عویمر کی بیک وقت تین طلاق کو باوجود ناراضی کے نافذ فرمادیا اسی طرح مذکورہ حدیث محمود بن لبید کے متعلق قاضی ابوبکر بن عربی نے یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عویمر کی تین طلاقوں کی طرح اس کی بھی تین طلاقوں کو نافذ فرما دیا تھا ان کے الفاظ یہ ہیں
فلم یردہ النبی ﷺ بل امضاہ کما فی حدیث عویمر العجلانی فی اللعان حیث امضی طلاقہ الثلاث ولم یردہٗ (تھذیب سنن ابی داؤد طبع مصر ص 129 جلد 3) تو رسول اللہ ﷺ نے اسے رد نہیں کیا بلکہ اسے نافذ فرمادیا جیسا کہہ عویمر عجلانی کی لعان والی حدیث میں ہے کہ آپ نے ان کی تین طلاقوں کو نافذ فرمادیا تھا اور رد نہیں کیا تھا۔
دوسری حدیث صدیقہ عائشہ کی صحیح بخاری میں بالفاظ ذیل ہے
ان رجلا طلق امرأ تہ ثلاثا فتزوجت فلطق فسئل النبی ﷺ اتحل للاول قال لا حتیٰ یذوق عسیلتہا کما ذاقہا الاول، (صحیح بخاری، ص 791 ج 2) ایک آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی اس عورت نے دوسری جگہ نکاح کیا تو اس دوسرے شوہر نے بھی اسے طلاق دے دینبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا کیا یہ عورت پہلے شوہر کے لئے حلال ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں جب تک کہ دوسرا شوہر اس سے ہم بستری کرکے لطف اندوز نہ ہوجائے جس طرح پہلے شوہر نے کیا تھا اس وقت تک طلاق دینے سے پہلے شوہر کے لئے حلال نہیں ہوگی۔
الفاظ روایت سے ظاہر یہی ہے کہ یہ تینوں طلاق بیک وقت دی گئی تھیں شروح حدیث فتح الباری عمدۃ قسطلانی وغیرہ میں روایت کا مفہوم یہی قرار دیا گیا ہے کہ بیک وقت تین طلاق دی تھیں اور حدیث میں یہ فیصلہ مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان تین طلاق کو نافذ قرار دے کر حکم دیا کہ جب تک شوہر ثانی سے ہمبستری اور صحبت نہ ہوجائے تو اس کے طلاق دینے سے شوہر اول کے لئے حلال نہیں ہوگی۔
تیسری روایت حضرت عویمر عجلانی کی ہے کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کے سامنے اپنی بیوی سے لعان کیا اور اس کے بعد عرض کیا
فلما فرغا قال عمویمر کذبت علیہا یارسول اللہ ان امسک تھا فطلقہا ثلاثاً قبل ان یامرہ النبی ﷺ (صحیح بخاری مع فتح الباری ص 301 ج 9 صحیح مسلم ص 289 ج 1) پس جب وہ دونوں لعان سے فارغ ہوگئے تو عویمر نے کہا اے اللہ کے رسول میں اس پر جھوٹ بولنے والا ہوں گا اگر میں نے اس کو اپنے پاس رکھ لیا، تو عویمر نے اس کو تین طلاقیں دے دیقبل اس کے رسول اللہ ﷺ انھیں حکم دیتے۔
اور ابوذر نے اس واقعہ کو بروایت حضرت سہل بن سعد نقل کرکے یہ الفاظ نقل کئے ہیں
فانفذہ رسول اللہ ﷺ وکان ماصنع عند رسول اللہ ﷺ سنۃ قال سعد حضرت ھذٰا عند رسول اللہ ﷺ فمضت السنۃ بعد فی المتلاعنین ان یفرق بینہما ثم لا یجتمعان ابدا (ابوداؤد ص 302 طبع اصح المطالبع) تو رسول اللہ ﷺ نے اسے نافذ فرمادیا اور رسول اللہ ﷺ کے سامنے جو کچھ پیش آیا وہ سنت قرار پایا، سعد فرماتے ہیں اس موقع پر میں رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر تھا پس اس کے بعد لعان کرنے والوں کے بارے میں یہ طریقہ رائج ہوگیا کہ ان کے درمیان تفریق کردی جائے اور پھر وہ کبھی بھی جمع نہ ہوں۔
اس حدیث میں پوری وضاحت کے ساتھ ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عویمر کی بیک وقت تین طلاق کو تین ہی قرار دے کر نافذ فرمایا ہے۔
اور محمود بن لبید کی سابقہ روایت میں بھی ابوبکر ابن عربی کی روایت کے مطابق تین طلاقوں کو نافذ کرنے کا ذکر موجود ہے اور بالفرض یہ بھی نہ ہوتا یہ کہیں منقول نہیں کہ آپ نے اس کو ایک طلاق رجعی قرار دے کر بیوی اس کے سپرد کردی ہو۔
الحاصل مذکورہ تینوں احادیث سے یہ ثابت ہوگیا کہ اگرچہ تین طلاق بیک وقت رسول اللہ ﷺ کے نزدیک سخت ناراضی کا موجب تھیں مگر بہرحال اثر ان کا یہی ہوا کہ تینوں طلاقیں واقع قراردی گیئں۔
حضرت فاروق اعظم کا واقعہ اور اس پر اشکال و جواب
مذکور الصدر تحریر سے یہ ثابت ہوا کہ بیک وقت تین طلاق کو تین قرار دینا خود رسول اللہ ﷺ کا فیصلہ تھا مگر یہاں ایک اشکال حضرت فاروق اعظم کے ایک واقعہ سے پیدا ہوتا ہے جو صحیح مسلم اور اکثر کتب حدیث میں منقول ہے اس کے الفاظ یہ ہیں
عن ابن عباس قال کان الطلاق علیٰ عھد رسول اللہ ﷺ وابی بکر وسنتین من خلافۃ عمر طلاق الثلاث واحدۃ فقال عمر بن الخطاب ان الناس قد استعجلوا فی امر کانت لہم فیہ اناۃ فلو امضینا علیہم فامضاہ علیہم (صحیح مسلم ص 477 جلد 1)
حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں حضرت ابوبکر کے عہد خلافت میں اور حضرت عمر کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں طلاق کا یہ طریقہ تھا کہ تین طلاقوں کو ایک قرار دیا جاتا تھا تو حضرت عمر نے فرمایا کہ لوگ جلدی کرنے لگے ہیں ایک ایسے معاملہ میں جس میں ان کے لئے مہلت تھی تو مناسب رہے گا ہم اس کو ان پر نافذ کردیں تو آپ نے ان پر نافذ کردیا۔
فاروق اعظم کا یہ اعلان فقہاء صحابہ کرام ؓ اجمعین کے مشورہ سے صحابہ وتابعین کے مجمع عام میں ہوا کسی سے اس پر انکار یا تردد منقول نہیں اسی لئے حافظ حدیث امام ابن عبد البر مالکی نے اس پر اجماع نقل کیا ہے زرقانی شرح مؤ طاء میں یہ الفاظ ہیں
والجمہور علیٰ وقوع الثلاث بل حکیٰ ابن عبد البر الاجماع قائلا ان خلافہ لا یلتفت الیہ (زرقانی شرح مؤ طاء ص 167 ج 3)
اور جمہور امت تین طلاقوں کے واقع ہونے پر متفق ہیں بلکہ ابن عبد البر نے اس پر اجماع نقل کرکے فرمایا کہ اس کا خلاف شاذ ہے جس کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا۔
اور شیخ الاسلام نووی نے شرح مسلم میں فرمایا
فخاطب عمر بذلک الناس جمیعاً وفیہم اصحاب رسول اللہ ﷺ ؓ الذین قد علموا ما تقدم من ذلک فی زمن رسول اللہ ﷺ فلم ینکر علیہ منہم منکر ولم یدفعہ دافع (شرح معانی الآثارص 29 ج 2)
پس حضرت عمر ؓ نے اس کے ساتھ لوگوں کو مخاطب فرمایا اور ان لوگوں میں رسول اللہ ﷺ کے وہ صحابہ کرام ؓ اجمعین بھی تھے جن کو اس سے پہلے رسول اللہ ﷺ کے زمانے کے طریقے کا علم تھا تو ان میں سے کسی انکار کرنے والے نے انکار نہیں کیا اور کسی رد کرنے والے نے اسے رد نہیں کیا۔
مذکورہ واقعہ میں اگرچہ امت کے لئے عمل کی راہ باجماع صحابہ کرام ؓ اجمعین وتابعین مقرر ہوگئی کہ تین طلاقیں بیک وقت دینا اگرچہ غیر مستحسن اور رسول اللہ ﷺ کی ناراض کا سبب ہے مگر اس کے باوجود جس نے اس غلطی کا ارتکاب کیا اس کی بیوی اس پر حرام ہوجائے گی اور بغیر دوسرے شخص سے نکاح و طلاق کے اس کے لئے حلال نہ ہوگی۔
لیکن علمی اور نظری طور پر یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں اول تو یہ کہ سابقہ تحریر میں متعدد روایات حدیث کے حوالے سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ تین طلاق بیک وقت دینے والے پر خود رسول اللہ ﷺ نے تین طلاق کو نافذ فرمایا ہے اس کو رجعت یا نکاح جدید کی اجازت نہیں دی پھر اس واقعہ میں حضرت عبداللہ ابن عباس کے اس کلام کا کیا مطلب ہوگا کہ عہد رسالت میں اور عہد صدیقی میں اور دو سال تک عہد فاروقی میں تین طلاق کو ایک ہی مانا جاتا تھا فاروق اعظم نے تین طلاق کا فیصلہ فرمایا ؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر واقعہ اسی طرح تسلیم کرلیا جائے کہ عہد رسالت عہد صدیقی میں تین طلاق کو ایک مانا جاتا تھا تو فاروق اعظم ؓ نے اس فیصلہ کو کیسے بدل دیا اور بالفرض ان سے کوئی غلطی بھی ہوگئی تھی تو تمام صحابہ کرام ؓ اجمعین نے اس کو کیسے تسلیم کرلیا ؟
ان دونوں سوالوں کے حضرات فقہاء ومحدثین نے مختلف جوابات دیئے ہیں ان میں صاف اور بےتکلف جواب وہ ہے جسکو امام نووی نے شرح مسلم میں اصح کہہ کر نقل کیا ہے کہ فاروق اعظم کا یہ فرمان اور اس پر صحابہ کرام ؓ اجمعین کا اجماع طلاق ثلاث کی ایک خاص صورت کے متعلق قرار دیا جائے وہ یہ کہ کوئی شخص تین مرتبہ تجھ کو طلاق، تجھ کو طلاق، تجھ کو طلاق، کہے یا میں نے طلاق دی، طلاق دی، طلاق دی کہے۔
یہ صورت ایسی ہے کہ اس کے معنی میں دو احتمال ہوتے ہیں ایک یہ کہ کہنے والے نے تین طلاق دینے کی نیت سے یہ الفاظ کہے ہوں دوسرے یہ کہ تین مرتبہ محض تاکید کے لئے مکرر کہا ہو تین طلاق کی نیت نہ ہو اور یہ ظاہر ہے کہ نیت کا علم کہنے والے ہی کے اقرار سے ہوسکتا ہے، رسول کریم ﷺ کے عہد مبارک میں صدق ودیانت عام اور غالب تھی اگر ایسے الفاظ کہنے کے بعد کسی نے یہ بیان کیا کہ میری نیت تین طلاق کی نہیں تھی بلکہ محض تاکید کے لئے یہ الفاظ مکرر بولے تھے تو آپ اس کے حلفی بیان کی تصدیق فرما دیتے اور اس کو ایک ہی طلاق قرار دیتے تھے۔
اس کی تصدیق حضرت رکانہ ؓ کی حدیث سے ہوتی ہے جس میں مذکور ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو لفظ البتۃ کے ساتھ طلاق دے دیتھی یہ لفظ عرب کے عرف عام میں تین طلاق کے لئے بولا جاتا تھا مگر تین اس کا مفہوم صریح نہیں تھا اور حضرت رکانہ نے کہا کہ میری نیت تو اس لفظ سے تین طلاق کی نہیں تھی بلکہ ایک طلاق دینے کا قصد تھا، آنحضرت ﷺ نے ان کو قسم دی انہوں نے اس پر حلف کرلیا تو آپ نے ایک ہی طلاق قرار دیدی۔
یہ حدیث ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ، دارمی میں مختلف سندوں اور مختلف الفاظ کے ساتھ منقول ہے بعض الفاظ میں یہ بھی ہے کہ حضرت رکانہ نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دیتھی مگر ابوداؤد نے ترجیح اس کو دی ہے کہ دراصل رکانہ نے لفظ البتۃ سے طلاق دی تھی یہ لفظ چونکہ عام طور پر تین طلاق کے لئے بولا جاتا تھا اس کے کسی راوی نے اس کو تین طلاق سے تعبیر کردیا ہے۔
بہرحال اس حدیث سے یہ بات باتفاق ثابت ہے کہ حضرت رکانہ کی طلاق کو رسول اللہ ﷺ نے ایک اس وقت قرار دیا جب کہ انہوں نے حلف کے ساتھ بیان دیا کہ میری نیت تین طلاق کی نہیں تھی اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے تین طلاق کے الفاظ صریح اور صاف نہیں کہے تھے ورنہ پھر تین کی نیت نہ کرنے کا کوئی احتمال ہو کہ تین کی نیت کی ہے یا ایک ہی کی تاکید ان میں آپ نے حلفی بیان پر ایک قرار دے دیا کیونکہ زمانہ صدق دیانت کا تھا اس کا احتمال بہت بعید تھا کہ کوئی شخص جھوٹی قسم کھالے۔
صدیق اکبر کے عہد میں اور فاروق اعظم کے ابتدائی عہد میں دو سال تک یہی طریقہ جاری رہا پھر حضرت فاروق اعظم نے اپنے زمانے میں یہ محسوس کیا کہ اب صدق ودیانت کا معیار گھٹ رہا ہے اور آئندہ حدیث کی پیشنگوئی کے مطابق اور گھٹ جائے گا، دوسری طرف ایسے واقعات کی کثرت ہوگئی کہ تین مرتبہ الفاظ طلاق کہنے والے اپنی نیت صرف ایک طلاق کی بیان کرنے لگے تو یہ محسوس کیا گیا کہ اگر آئندہ اسی طرح طلاق دینے والے کے بیان نیت کی تصدیق کرکے ایک طلاق قرار دی جاتی رہی تو بعید نہیں کہ لوگ شریعت کی دی ہوئی سہولت کو بےجا استعمال کرنے لگیں اور بیوی کو واپس لینے کے لئے جھوٹ کہہ دیں کہ نیت ایک ہی کی تھی فاروق اعظم کی فراست اور انتظام دین میں دور بینی کو سبھی صحابہ کرام ؓ اجمعین نے درست سمجھ کر اتفاق کیا یہ حضرات رسول اللہ ﷺ کے مزاج شناس تھے انہوں نے سمجھا کہ اگر ہمارے اس دور میں رسول اللہ ﷺ موجود ہوتے تو یقینا وہ بھی اب دلوں کی مخفی نیت اور صاحب معاملہ کے بیان پر مدار رکھ کر فیصلہ نہ فرماتے اس لئے قانون یہ بنادیا کہ اب جو شخص تین مرتبہ لفظ طلاق کا تکرار کرے گا اس کی تین ہی طلاقیں قرار دی جائیں گی اس کی یہ بات نہ سنی جائے گی کہ اس نے نیت صرف ایک طلاق کی کی تھی۔
حضرت فاروق اعظم کے مذکور الصدر واقعہ میں جو الفاظ منقول ہیں وہ بھی اسی مضمون کی شہادت دیتے ہیں انہوں نے فرمایا۔
ان الناس قد استجلوا فی امر کانت لہم فیہ اناۃ فلو امضینا علیہملوگ جلدی کرنے لگے ہیں ایک ایسے معاملہ میں جس میں ان کے لئے مہلت تھی تو مناسب رہے گا کہ ہم اس کو ان پر نافذ کردیں۔
حضرت اعظم کے اس فرمان اور اس پر صحابہ کرام ؓ اجمعین کے اجماع کی یہ توجہیہ جو بیان کی گئی ہے اس کی تصدیق روایات حدیث سے بھی ہوتی ہے اور اس سے ان دونوں سوالوں کا خود بخود حل نکل آتا ہے کہ روایات حدیث میں خود آنحضرت ﷺ سے تین طلاق کو تین ہی قرار دے کر نافذ کرنا متعدد واقعات سے ثابت ہے، حضرت ابن عباس کا یہ فرمانا کیسے صحیح ہوسکتا ہے کہ عہد رسالت میں تین کو ایک ہی مانا جاتا تھا کیونکہ معلوم ہوا کہ ایسی طلاق جو تین کے لفظ سے دی گئی یا تکرار طلاق تین کی نیت سے کیا گیا اس میں عہد رسالت میں بھی تین ہی قرار دی جاتی تھی ایک قرار دینے کا تعلق ایسی طلاق سے ہے جس میں ثلاث کی تصریح نہ ہو یا تین طلاق دینے کا اقرار نہ ہو بلکہ تین بطور تاکید کے کہنے کا دعویٰ ہو۔
اور یہ سوال بھی ختم ہوجاتا ہے کہ جب آنحضرت ﷺ نے تین کو ایک قرار دیا تھا تو فاروق اعظم نے رسول اللہ ﷺ کی دی ہوئی سہولت کے بےجا استعمال سے روکا ہے معاذ اللہ آپ کے کسی فیصلہ کے خلاف کا یہاں کوئی شائبہ نہیں۔
اس طرح تمام اشکالات رفع ہوگئے والحمد للہ، اس جگہ مسئلہ طلاق ثلاث کی مکمل بحث اور اس کی تفصیلات کا احاطہ مقصود نہیں وہ شروح حدیث میں بہت مفصل ہے، اور بہت سے علماء نے اس کو مفصل رسالوں میں بھی واضح کردیا ہے سمجھنے کے لئے بھی کافی ہے۔ واللہ الموفق والمعین۔
Top