Maarif-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 18
بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُهٗ فَاِذَا هُوَ زَاهِقٌ١ؕ وَ لَكُمُ الْوَیْلُ مِمَّا تَصِفُوْنَ
بَلْ : بلکہ نَقْذِفُ : ہم پھینک مارتے ہیں بِالْحَقِّ : حق کو عَلَي : پر الْبَاطِلِ : باطل فَيَدْمَغُهٗ : پس وہ اس کا بھیجا نکال دیتا ہے فَاِذَا : تو اس وقت هُوَ : وہ زَاهِقٌ : نابود ہوجاتا ہے وَلَكُمُ : اور تمہارے لیے الْوَيْلُ : خرابی مِمَّا : اس سے جو تَصِفُوْنَ : تم بناتے ہو
یوں نہیں پر ہم پھینک مارتے ہیں سچ کو جھوٹ پر پھر وہ اس کا سر پھوڑ ڈالتا ہے پھر وہ جاتا رہتا ہے اور تمہارے لئے خرابی ہے ان باتوں سے جو تم بتلاتے ہو
بَلْ نَقْذِفُ بالْحَقِّ عَلَي الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهٗ فَاِذَا هُوَ زَاهِقٌ، قذف کے لغوی معنی پھینکنے اور پھینک مارنے کے، یدمغ کے معنے دماغ پر ضرب لگانے کے ہیں اور زاہق کے معنے جانے والا اور بےنام و نشان ہوجانے والا۔ مطلب آیت کا یہ ہے کہ زمین و آسمان کی عجیب و غریب کائنات ہم نے کھیل کے لئے نہیں بلکہ بڑی حکمتوں پر مبنی کر کے بنائی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان کے ذریعہ حق و باطل کا امتیاز ہوتا ہے، مصنوعات قدرت کا مشاہدہ انسان کو حق کی طرف ایسی رہبری کرتا ہے کہ باطل اس کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا۔ اسی مضمون کی تعبیر اس طرح کی گئی ہے کہ حق کو باطل کے اوپر پھینک مارا جاتا ہے جس سے باطل کا دماغ (بھیجا) نکل جاتا ہے اور وہ بےنام و نشان ہو کر رہ جاتا ہے۔
Top