Maarif-ul-Quran - Al-Hajj : 47
وَ یَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ وَ لَنْ یُّخْلِفَ اللّٰهُ وَعْدَهٗ١ؕ وَ اِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ
وَيَسْتَعْجِلُوْنَكَ : اور وہ تم سے جلدی مانگتے ہیں بِالْعَذَابِ : عذاب وَلَنْ : اور ہرگز نہیں يُّخْلِفَ : خلاف کرے گا اللّٰهُ : اللہ وَعْدَهٗ : اپنا وعدہ وَاِنَّ : اور بیشک يَوْمًا : ایک دن عِنْدَ رَبِّكَ : تمہارے رب کے ہاں كَاَلْفِ سَنَةٍ : ہزار سال کے مانند مِّمَّا : اس سے جو تَعُدُّوْنَ : تم گنتے ہو
اور تجھ سے جلدی مانگتے ہیں عذاب اور اللہ ہرگز نہ ٹالے گا اپنا وعدہ اور ایک دن تیرے رب کے یہاں ہزار برس کے برابر ہوتا ہے جو تم گنتے ہو
آخرت کا دن ایک ہزار سال ہونے کا مطلب
آیت مذکورہ میں جو یہ فرمایا ہے اِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ ، یعنی آپ کے رب کے پاس ایک دن دنیا کے ایک ہزار سال کی برابر ہوگا۔ اس میں دو احتمال ہیں ایک یہ کہ اس دن سے مراد قیامت کا دن لیا جائے اور اس کا ایک ہزار سال کی برابر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس دن کے ہولناک واقعات اور ہیبت ناک حالات کی وجہ سے یہ دن اتنا دراز محسوس ہوگا جیسے ایک ہزار سال خلاصہ تفسیر مذکور میں اسی کو اشتداد کے لفظ سے تعبیر کیا ہے بہت سے حضرات مفسرین نے اس کے یہی معنے قرار دیئے ہیں۔
دوسرے یہ کہ واقع میں عالم آخرت کا ایک دن ہمیشہ کے لئے دنیا کے ایک ہزار سال ہی کے برابر ہو بعض روایات حدیث سے اسی معنے کی شہادت ملتی ہے۔ مسند احمد، ترمذی میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک روز فقراء مہاجرین کو خطاب کر کے فرمایا کہ تم کو میں قیامت کے روز مکمل نور کی بشارت دیتا ہوں اور یہ کہ تم اغنیاء اور مالداروں سے آدھا دن پہلے جنت میں جاؤ گے اور اللہ کے یہاں ایک دن ایک ہزار سال کا ہوگا اس لئے فقراء اغنیاء سے پانچ سو سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے (رواہ الترمذی و حسنہ۔ مظہری)
خلاصہ تفسیر میں اسی دوسرے معنے کو بلفظ امتداد تعبیر کیا گیا ہے۔ واللہ اعلم
ایک شبہ کا جواب
سورة معارج میں جو آخرت کے دن کو پچاس ہزار سال کے برابر قرار دیا ہے کان مِقْدَارُهٗ خَمْسِيْنَ اَلْفَ سَـنَةٍ اس میں بھی دونوں تفسیریں اشتداد اور امتداد کی ہو سکتی ہیں اور ہر شخص کی شدت و مصیبت چونکہ دوسروں سے مختلف اور کم و بیش ہوگی اس لئے وہ دن کسی کو ایک ہزار سال کا محسوس ہوگا کسی کو پچاس ہزار سال کا، اور اگر دوسرے معنے لئے جاویں کہ حقیقةً آخرت کا دن پچاس ہزار سال کا ہوگا تو ان دونوں آیتوں میں بظاہر تعارض ہوتا ہے کہ ایک میں ایک ہزار سال اور دوسری میں پچاس ہزار سال کا ذکر ہے تو اس کی تطبیق سیدی حکیم الامت قدس سرہ نے بیان القرآن میں بیان فرمائی ہے جو اہل علم کے لئے علمی اور اصطلاحی الفاظ ہی میں نقل کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ تفاوت ایک ہزار سال سے پچاس ہزار سال تک اختلاف آفاق کے اعتبار سے ہو جس طرح دنیا میں معدل النہار کی حرکت کہیں دولابی ہے کہیں حمائلی کہیں رحوی اور اسی وجہ سے خط استواء پر ایک رات دن چوبیس گھنٹے کا ہوتا ہے اور عرض تسعین (قطب شمالی) پر ایک سال کا اور ان دونوں کے درمیان مختلف مقادیر پر مختلف ہوتا چلا جاتا ہے اسی طرح ممکن ہے کہ اول شمس کی حرکت جو معدل کے ساتھ ہے بطور خرق عادت و اعجاز اس قدر سست ہوجائے کہ ایک افق پر ایک ہزار سال کا دن ہو اور جو افق اس سے پچاس حصے ہٹا ہوا ہو اس پر پچاس ہزار برس کا ہو اور درمیان میں اسی نسبت سے متفاوت ہو، واللہ اعلم (بیان القرآن)
Top