Maarif-ul-Quran - An-Nahl : 42
اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَتَكُوْنَ لَهُمْ قُلُوْبٌ یَّعْقِلُوْنَ بِهَاۤ اَوْ اٰذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِهَا١ۚ فَاِنَّهَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ وَ لٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ
اَفَلَمْ يَسِيْرُوْا : پس کیا وہ چلتے پھرتے نہیں فِي الْاَرْضِ : زمین میں فَتَكُوْنَ : جو ہوجاتے لَهُمْ : ان کے قُلُوْبٌ : دل يَّعْقِلُوْنَ : وہ سمجھنے لگتے بِهَآ : ان سے اَوْ : یا اٰذَانٌ : کان (جمع) يَّسْمَعُوْنَ : سننے لگتے بِهَا : ان سے فَاِنَّهَا : کیونکہ درحقیقت لَا تَعْمَى : اندھی نہیں ہوتیں الْاَبْصَارُ : آنکھیں وَلٰكِنْ : اور لیکن (بلکہ) تَعْمَى : اندھے ہوجاتے ہیں الْقُلُوْبُ : دل (جمع) الَّتِيْ : وہ جو فِي الصُّدُوْرِ : سینوں میں
کیا سیر نہیں کی ملک کی جو ان کے دل ہوتے جن سے سمجھتے یا کان ہوتے جن سے سنتے سو کچھ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں پر اندھے ہوجاتے ہیں دل جو سینوں میں ہیں
معارف و مسائل
زمین کی سیر و سیاحت اگر عبرت و بصیرت حاصل کرنے کے لئے ہو تو مطلوب دینی ہے
اَفَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَتَكُوْنَ لَهُمْ قُلُوْبٌ، اس آیت میں زمین کی سیر و سیاحت جبکہ بچشم عبرت ہو اس کی طرف ترغیب ہے اور فَتَكُوْنَ لَهُمْ قُلُوْبٌ سے اس طرف اشارہ ہے کہ زمانہ ماضی اور گزشتہ اقوام عالم کے حالات و کیفیات کا مشاہدہ انسان کو عقل و بصیرت عطا کرنے والا ہے بشرطیکہ ان حالات کو بعض تاریخی سوانح کی حیثیت سے نہیں بلکہ عبرت کی نظر سے دیکھے تو ہر واقعہ ایک بصیرت کا سبق دے گا۔ ابن ابی حاتم نے کتاب التفکر میں حضرت مالک بن دینار سے نقل کیا ہے کہ حق تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو حکم دیا کہ لوہے کے جوتے بناؤ اور لوہے کی عصا ہاتھ میں لو اور اللہ کی زمین میں اتنے پھرو کہ یہ آہنی جوتے گھس جائیں اور آہنی عصا ٹوٹ جائے (روح المعانی) اگر یہ روایت صحیح ہے تو اس سیر و سیاحت کا مقصد وہی عبرت و بصیرت حاصل کرنا ہے۔
Top