Maarif-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 192
وَ اِنَّهٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَؕ
وَاِنَّهٗ : اور بیشک یہ لَتَنْزِيْلُ : البتہ اتارا ہوا رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہانوں کا رب
اور یہ قرآن ہے اتارا ہوا پروردگار عالم کا
خلاصہ تفسیر
اور یہ قرآن رب العالمین کا بھیجا ہوا ہے اس کو امانت دار فرشتہ لے کر آیا ہے آپ کے قلب پر صاف عربی زبان میں تاکہ آپ (بھی) منجملہ ڈرانے والوں کے ہوجاویں (یعنی جس طرح اور پیغمبروں نے اپنی امت کو احکام الہیہ پہنچائے آپ بھی پہنچائیں) اور اس (قرآن) کا ذکر پہلی امتوں کی (آسمانی) کتابوں میں (بھی) ہے (کہ ایک ایسی شان کا پیغمبر ہوگا اور اس پر ایسا کلام نازل ہوگا۔ چناچہ تفسیر حقانی کے اس مقام کے حواشی میں چند بشارتیں کتب سابقہ تورات و انجیل کی نقل کی ہیں۔ آگے اس مضمون وَاِنَّهٗ لَفِيْ زُبُرِ الْاَوَّلِيْنَ کی توضیح ہے یعنی) کیا ان لوگوں کے لئے (اس پر) یہ بات دلیل نہیں ہے کہ اس (پیشین گوئی) کو علماء بنی اسرائیل جانتے ہیں (چنانچہ ان میں جو لوگ اسلام لے آئے ہیں وہ تو علی الاعلان اس کا اعتراف کرتے ہیں اور جو اسلام نہیں لائے وہ بھی خاص خاص لوگوں کے سامنے اس کا اقرار کرتے ہیں جیسے کہ پارہ اول کے ربع پر آیت اَتَاْمُرُوْنَ النَّاس بالْبِرِّ کی تفسیر میں اس کا بیان آ چکا ہے اور ان اقرار کرنے والوں کی تعداد اور کثرت اس وقت اگر خبر واحد تک بھی مان لی جاوے تاہم قرائن کی وجہ سے معنوی تواتر حاصل تھا اور یہ دلیل قائم کرنا ان پڑھ غریبوں کے لئے ہے ورنہ لکھے پڑھے لوگ خود اصل کتاب سے دیکھ سکتے تھے اور اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ کتب سابقہ میں تحریف نہیں ہوئی، کیونکہ باوجود تحریف کے ایسے مضامین کا باقی رہ جانا اور زیادہ حجت ہے اور یہ احتمال کہ یہ مضامین ہی تحریف کا نتیجہ ہوں اس لئے غلط ہے کہ اپنے نقصان کے لئے کوئی تحریف نہیں کیا کرتا۔ یہ مضامین تو تحریف کرنے والوں کے لئے نقصان دہ ہیں جیسا کہ ظاہر ہے۔ یہاں تک تو دعویٰ وَاِنَّهٗ لَتَنْزِيْلُ کی دو نقلی دلیلیں بیان فرمائی ہیں یعنی پہلی کتابوں میں ذکر اور بنی اسرائیل کا جاننا کہ ان میں بھی ثانی اول کی دلیل ہے اور آگے انکار کرنے والوں کے عناد کے بیان کے ضمن میں اسی دعویٰ کی عقلی دلیل کی طرف اشارہ ہے یعنی اعجاز قرآن، مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ ایسے معاند ہیں کہ) اگر (بالفرض) ہم اس (قرآن) کو کسی عجمی (غیر عربی) پر نازل کردیتے پھر وہ (عجمی) ان کے سامنے اس کو پڑھ بھی دیتا (اس کا معجزہ ہونا اور زیادہ ظاہر ہوتا ہے کیونکہ جس پر نازل ہوا اس کو عرب زبان پر بالکل قدرت نہ ہوتی، لیکن) یہ لوگ (بوجہ انتہائی ضد کے) تب بھی اس کو نہ مانتے (آگے حضور کی تسلی کے واسطے ان کے ایمان لانے سے ناامید دلاتے ہیں یعنی) ہم نے اسی طرح (شدت و اصرار کے ساتھ) اس ایمان نہ لانے کو ان نافرمانوں کے دلوں میں ڈال رکھا ہے (یعنی کفر میں، اور اس پر مصر ہیں اور اس شدت و اصرار کی وجہ سے) یہ لوگ اس (قرآن) پر ایمان نہ لاویں گے جب تک کہ سخت عذاب کو (مرنے کے وقت یا برزخ میں یا آخرت میں) نہ دیکھ لیں گے جو اچانک ان کے سامنے آکھڑا ہوگا اور ان کو (پہلے سے) خبر بھی نہ ہوگی پھر (اس وقت جان کو بنے گی تو) کہیں گے کہ کیا (کسی طور پر) ہم کو (کچھ) مہلت مل سکتی ہے (لیکن وہ وقت نہ ملہت کا ہے نہ قبول ایمان کا اور وہ کفار ایسے مضامین و عید و عذاب کے سن کر براہ انکار عذاب کا تقاضا کیا کرتے تھے مثلاً کہتے تھے عَجِّلْ لَّنَا قِطَّنَا اور اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً یعنی اے اللہ اگر یہ تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر پتھروں کی بارش برسا اور مہلت کو، جو درحقیقت ڈھیل ہے، عذاب نہ واقع ہونے کی دلیل ٹھہراتے تھے، آگے اس کا جواب ہے کہ) کیا (ہماری وعیدوں کو سن کر) یہ لوگ ہمارے عذاب کی تعجیل چاہتے ہیں (جس کا منشاء انکار ہے یعنی باوجود قیام دلیل یعنی ایک سچے بزرگ کی خبر کے پھر بھی انکار کرتے ہیں ؟ رہا مہلت کو بناء انکار قرار دینا سو یہ سخت غلطی ہے کیونکہ) اے مخاطب ذرا بتلاؤ تو اگر ہم ان کو (چند سال تک) عیش میں رہنے دیں پھر جس (عذاب) کا ان سے وعدہ ہے وہ ان کے سر آ پڑے تو ان کا وہ عیش کس کام آسکتا ہے (یعنی یہ عیش کی جو مہلت دی گئی اس سے ان کے عذاب میں کوئی خفت یا کمی نہیں ہو سکتی) اور (مہلت دینا حکمت کی وجہ سے چند روز تک خواہ کم یا زیادہ کچھ ان ہی کے ساتھ خاص نہیں بلکہ امم سابقہ کو بھی مہلتیں ملی ہیں چنانچہ) جتنی بستیاں (منکرین کی) ہم نے (عذاب سے) غارت کی ہیں سب میں نصیحت کے واسطے ڈرانے والے (پیغمبر) آئے (جب نہ مانے تو عذاب نازل ہوا) اور (صورة بھی) ظالم نہیں ہیں (مطلب یہ کہ مہلت دینے سے جو مقصود ہے یعنی حجت پورا کرنا اور عذر کو ختم کرنا وہ سب کے لئے رہا، پیغمبروں کا آنا سمجھانا خود یہ بھی ایک مہلت ہی دینا ہے مگر پھر بھی ہلاکت کا عذاب آ کر رہا۔ ان واقعات سے مہلت دینے کی حکمت بھی معلوم ہوگئی اور مہلت دینے اور عذاب میں تضاد نہ ہونا بھی ثابت ہوگیا اور صورة اس لئے کہا گیا کہ حقیقتہ تو کسی حالت میں بھی ظلم نہ ہوتا۔ آگے پھر مقصود اوّل یعنی مضمون وَاِنَّهٗ لَتَنْزِيْلُ الخ کی طرف رجوع ہے اور درمیان میں یہ مضامین منکرین کی حالت کے مناسب ہونے کی وجہ سے مذکور ہوئے تھے اور حاصل مضمون آئندہ آیات کا ان شبہات کا دفع کرنا ہے جو قرآن کی حقانیت کے متعلق تھے پس ایک شبہ تو قرآن کے اللہ کا کلام اور اس کی طرف بھیجا ہوا ماننے پر اس لئے تھا کہ عرب میں پہلے سے کاہن ہوتے آئے تھے وہ بھی کچھ مختلف قسم کے جملے بولا کرتے تھے نعوذ باللہ آپ کی نسبت بھی بعضے کفار یہی کہتے تھے (کما فی الدر عن ابن زید) اور بخاری میں ایک عورت کا قول نقل کیا ہے جس زمانہ میں رسول اللہ ﷺ پر وحی نازل ہونے میں کچھ دیر ہوئی تو اس عورت نے کہا کہ آپ کو آپ کے شیطان نے چھوڑ دیا ہے کیونکہ کاہنوں کو شیطان ہی کی تعلیم و تلقین سے کچھ حاصل ہوا کرتا تھا اس کا جواب ہے کہ یہ رب العالمین کا نازل کیا ہوا ہے) اور اس کو شیاطین (جو کاہنوں کے پاس آیا کرتے تھے) لے کر نہیں آئے (کیونکہ اس کے دو مانع قوی موجود ہیں ایک اس کی صفت شیطنت جس کے سبب) یہ (قرآن) ان (کی حالت) کے مناسب ہی نہیں (کیونکہ قرآن سب کا سب ہدایت اور شیطان سب کا سب گمراہی ہے نہ ان کو ایسے مضامین کی آمد ہو سکتی ہے اور نہ ایسے مضامین شائع کرنے سے ان کی غرض یعنی مخلوق کو گمراہ کرنا پورا ہوسکتا ہے ایک مانع تو یہ ہوا) اور (دوسرا مانع یہ کہ وہ) اس پر قادر بھی نہیں کیونکہ وہ شیاطین (وحی آسمانی) سننے سے روک دیئے گئے ہیں (چنانچہ کاہنوں اور مشرکوں سے ان کے جنات نے اپنی ناکامی کا خود اعتراف کیا جس کی انہوں نے اوروں کو بھی خبر دی۔ چناچہ بخاری میں ایسے قصے باب اسلام عمر میں مذکور ہیں پس شیطانوں کی تلقین کا کسی طرح احتمال نہ رہا اور اس جواب کا پورا ہونا اور ایک دوسرے شبہ کا جواب ختم سورت کے قریب آوے گا درمیان میں تنزیل من اللہ ہونے پر بطور تفریع کے ایک مضمون ہے یعنی جب اس کا منزل من اللہ ہونا ثابت ہے تو اس کی تعلیم واجب العمل ہوئی اور منجملہ اس کے اہم امر اور اعظم توحید ہے) سو (اے پیغمبر ہم اس کے وجوب کی ایک خاص طریق سے تاکید کرتے ہیں کہ ہم آپ کو مخاطب بنا کر کہتے ہیں کہ) تم خدا کے ساتھ کسی اور معبود کی عبادت مت کرنا کبھی تم کو سزا ہونے لگے (حالانکہ آپ میں نعوذ باللہ نہ احتمال شرک کا ہی نہ تعذیب کا مگر لوگوں کو یہ بات جتلانا مقصود ہے کہ جب غیر اللہ کی عبادت پر آپ کے لئے بھی سزا کا حکم ہے تو اور بیچارے تو کسی شمار میں ہیں ؟ شرک سے ان کو کیسے منع نہ کیا جاوے اور شرک کر کے عذاب سے کیونکر بچیں گے) اور (اسی مضمون سے) آپ (سب سے پہلے) اپنے نزدیک کے کنبہ کو ڈرایئے (چنانچہ آپ نے سب کو پکار کر جمع کیا اور شرک پر عذاب الہی سے ڈرایا جیسا حدیثوں میں ہے) اور (آگے انداز یعنی دعوت نبوت کو قبول کرنے والے اور رد کرنے والوں کے ساتھ معاملہ کا طرز بتلاتے ہیں یعنی) ان لوگوں کے ساتھ (تو مشفقانہ) فروتنی سے پیش آیئے جو مسلمانوں میں داخل ہو کر آپ کی راہ پر چلیں (خواہ کنبہ کے ہوں یا غیر کنبہ کے) اور اگر یہ لوگ (جن کو آپ نے ڈرایا ہے) آپ کا کہنا نہ مانیں (اور کفر پر اڑے رہیں) تو آپ (صاف کہہ دیجئے کہ میں تمہارے افعال سے بیزار ہوں (ان دونوں امر یعنی اخفص وقل الخ میں حب فی اللہ اور بغض فی اللہ کی پوری تعلیم ہے اور کبھی ان مخالفین کی طرف سے ایذا اور نقصان دینے کا خطرہ نہ لایئے) اور خدائے رحیم پر توکل رکھئے جو آپ کو جس وقت کہ آپ (نماز کے لئے) کھڑے ہوتے ہیں اور (نیز نماز شروع کرنے کے بعد) نمازیوں کے ساتھ آپ کی نشست و برخاست کو دیکھتا ہے (اور نماز کے علاوہ بھی وہ دیکھتا بھالتا ہے کیونکہ) وہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے (پس جب اس کو علم بھی کامل ہے جیسے یراک اور سمیع، علیم اس پر دال ہیں اور وہ آپ پر مہربان بھی ہے، جیسا الرحیم اس پر دال ہے اور اس کو سب قدرت ہے جیسا العزیز سے مفہوم ہوتا ہے تو ضرور وہ لائق توکل ہے وہ آپ کو ضرر حقیقی سے بچاوے گا اور جو متوکل کو ضرر پہنچتا ہے وہ صرف ظاہر کے اعتبار سے ضرر ہوتا ہے جس کے تحت میں ہزاروں منافع ہوتے ہیں جن کا کبھی دنیا میں کبھی آخرت میں ظہور ہوتا ہے آگے کہانت کے شبہ کے جواب کا تتمہ ہے کہ اے پیغمبر لوگوں سے کہہ دیجئے کہ) کیا میں تم کو بتلاؤں کس پر شیطان اترا کرتے ہیں (سنو) ایسے شخصوں پر اترا کرتے ہیں جو (پہلے سے) دروغ گفتار بڑے بدکردار ہوں اور جو (اخبار شیاطین کے وقت ان شیطانوں کی طرف) کان لگا دیتے ہیں اور (لوگوں سے ان چیزوں کے بیان کرنے کے وقت) وہ بکثرت جھوٹ بولتے ہیں (چنانچہ سفلی عاملوں کو اب بھی اسی حالت میں دیکھا جاتا ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ فائدہ لینے والے اور فائدہ دینے والے کے درمیان مناسبت ضروری ہے تو شیطان کا شاگرد بھی وہ ہوگا جو جھوٹا اور گنہگار ہوگا، نیز شیطان کی طرف قلب سے متوجہ بھی ہو کہ بغیر توجہ سے استفادہ نہیں ہوتا اور چونکہ اکثر یہ علوم شیطانی ناتمام ہوتے ہیں اس لئے ان کو رنگین اور باوقعت کرنے کے لئے کچھ حاشیہ بھی ظن وتخمین سے چڑھانا پڑتا ہے جو کہ کہانت کے لئے عادةً ضروری ہیں اور یہ ساری باتیں نبی کریم ﷺ میں ہونے کا کوئی دور کا بھی احتمال نہیں کیونکہ آپ کا سچا ہونا سب کو معلوم ہے۔ آپ کا پرہیزگار ہونا اور شیاطین سے بغض رکھنے والا ہونا دشمن کو بھی مسلم تھا اور مشہور و معروف تھا تو پھر کہانت کا احتمال کہاں رہا) اور آگے شبہ شاعریت کا جواب ہے کہ آپ شاعر بھی نہیں ہیں جیسا کفار کہتے تھے بَلْ هُوَ شَاعِرٌ یعنی ان کے مضامین خیالی غیر واقعی ہیں گو منظوم نہ ہوں سو یہ احتمال اس لئے غلط ہے کہ) شاعروں کی راہ تو بےراہ لوگ چلا کرتے ہیں (مراد راہ سے شعر گوئی ہے۔ یعنی مضامین خیالی شاعرانہ نثر میں یا نظم میں کہنا ان لوگوں کا طریقہ ہے جو مسلک تحقیق سے دور ہوں آگے اس دعویٰ کی وضاحت ہے کہ) اے مخاطب کیا تم کو معلوم نہیں کہ وہ (شاعر) لوگ (خیالی مضامین) کے ہر میدان میں حیران (ٹکریں مارتے تلاش مضامین میں) پھرا کرتے ہیں اور (جب مضمون مل جاتا ہے تو چونکہ اکثر خلاف واقعہ ہوتا ہے اس لئے) زبان سے وہ باتیں کہتے ہیں جو کرتے نہیں (چنانچہ شاعروں کی گپوں کا ایک نمونہ لکھا جاتا ہے۔
اے رشک مسیحا تری رفتار کے قرباں ٹھوکر سے مری لاش کئی بار جلا دی
اے باد صبا ہم تجھے کیا یاد کریں گے اس گل کی خبر تو نے کبھی ہم کو نہ لا دی
صبا نے اس کے کوچہ سے اڑا کر خدا جانے ہماری خاک کیا کی، وغیرہ وغیرہ، حتی کہ کبھی کفریات بکنے لگتے ہیں۔ حاصل جواب کا یہ ہوا کہ مضامین شعریہ کے لئے خیالی اور غیر متحقق ہونا لازمی ہے اور مضامین قرآنیہ جس باب سے بھی متعلق ہیں سب کے سب تحقیقی، غیر خیالی ہیں اس لئے آپ کو شاعر کہنا سوائے جنن شاعرانہ کے اور کیا ہے حتی کہ اکثر چونکہ نظم میں ایسے ہی مضامین ہوا کرتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو نظم پر قدرت بھی نہیں دی اور اوپر چونکہ شعراء کی مذمت ارشاد ہوئی ہے جس کے عموم میں بظاہر سب نظم کہنے والے آگئے، گو ان کے مضامین عین حکمت اور تحقیق ہوں اس لئے آگے ان کا استثناء فرماتے ہیں کہ) ہاں مگر جو لوگ (ان شاعروں میں سے) ایمان لائے اور اچھے اچھے کام کئے (یعنی شرع کے خلاف نہ ان کا قول ہے نہ فعل، یعنی ان کے اشعار میں بیہودہ مضامین نہیں ہیں) اور انہوں نے (اپنے اشعار میں) کثرت سے اللہ کا ذکر کیا (یعنی تائید دین اور اشاعت علم میں ان کے اشعار ہیں کہ یہ سب ذکر اللہ میں داخل ہیں) اور (اگر کسی شعر میں بظاہر کوئی نامناسب مضمون بھی ہے جیسے کسی کی ہجو اور مذمت جو بظاہر اخلاق حسنہ کے خلاف ہے تو اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ) انہوں نے بعد اس کے کہ ان پر ظلم ہوچکا ہے (اس کا) بدلہ لیا (ہے یعنی کفار یا فساق نے اول ان کو زبانی تکلیف پہنچائی، مثلاً ان کی ہجو کی یا دین کی توہین کی جو اپنی ہجو سے بھی بڑھ کر تکلیف کا سبب ہے، یا ان کے مال کو یا جان کو ضرر پہنچایا، یعنی یہ لوگ مستثنی ہیں کیونکہ ا نتقامی طور پر جو شعر کہے گئے ہیں ان میں بعض تو مباح ہیں اور بعضے اطاعت و کار ثواب ہیں) اور (یہاں تک رسالت کے متعلق شبہات کے جوابات پورے ہوئے اور اس سے پہلے رسالت دلائل سے ثابت ہوچکی تھی اب آگے ان لوگوں کی وعید ہے جو اس کے باوجود منکر نبوت رہے اور حضور ﷺ کو ایذاء پہنچاتے ہیں یعنی) عنقریب ان لوگوں کو معلوم ہوجاوے گا جنہوں نے (حقوق اللہ، حقوق الرسول یا حقوق العباد میں) ظلم کر رکھا ہے کہ کیسی (بری اور مصیبت کی) جگہ ان کو لوٹ کر جانا ہے (مراد اس سے جہنم ہے۔)
Top