Maarif-ul-Quran - An-Naml : 19
فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّنْ قَوْلِهَا وَ قَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِیْۤ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَ عَلٰى وَالِدَیَّ وَ اَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىهُ وَ اَدْخِلْنِیْ بِرَحْمَتِكَ فِیْ عِبَادِكَ الصّٰلِحِیْنَ
فَتَبَسَّمَ : تو وہ مسکرایا ضَاحِكًا : ہنستے ہوئے مِّنْ : سے قَوْلِهَا : اس کی بات وَقَالَ : اور کہا رَبِّ : اے میرے رب اَوْزِعْنِيْٓ : مجھے توفیق دے اَنْ اَشْكُرَ : کہ میں شکر ادا کروں نِعْمَتَكَ : تیری نعمت الَّتِيْٓ : وہ جو اَنْعَمْتَ : تونے انعام فرمائی عَلَيَّ : مجھ پر وَعَلٰي : اور پر وَالِدَيَّ : میرے ماں باپ وَاَنْ : اور یہ کہ اَعْمَلَ صَالِحًا : میں نیک کام کروں تَرْضٰىهُ : تو وہ پسند کرے وَاَدْخِلْنِيْ : اور مجھے داخل فرمائے بِرَحْمَتِكَ : اپنی رحمت سے فِيْ : میں عِبَادِكَ : اپنے بندے الصّٰلِحِيْنَ : نیک (جمع)
پھر مسکرا کر ہنس پڑا اس کی بات سے اور بولا اے میرے رب میری قسمت میں دے کہ شکر کروں تیرے احسان کا جو تو نے کیا مجھ پر اور میرے ماں باپ پر اور یہ کہ کروں کام نیک جو تو پسند کرے اور ملا لے مجھ کو اپنی رحمت سے اپنے نیک بندوں میں۔
وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىهُ ، یہاں رضا بمعنے قبول ہے۔ معنے یہ ہیں کہ یا اللہ مجھے ایسے عمل صالح کی توفیق دیجئے جو آپ کے نزدیک مقبول ہو۔ روح المعانی میں اس سے اس پر استدلال کیا ہے کہ عمل صالح کے لئے قبولیت لازم نہیں ہے بلکہ قبولیت کچھ شرائط پر موقوف ہوتی ہے اور فرمایا کہ صالح اور مقبول ہونے میں نہ عقلاً کوئی لزوم ہے نہ شرعاً اسی لئے انبیاء (علیہم السلام) کی سنت ہے کہ اپنے اعمال صالحہ کے مقبول ہونے کی بھی دعا کرتے تھے جیسے حضرت ابراہیم و اسماعیل (علیہما السلام) نے بیت اللہ کی تعمیر کے وقت دعا فرمائی، رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا، اس سے معلوم ہوا کہ جو عمل نیک ہے صرف اس کو کر کے بےفکر ہونا نہیں چاہئے، اللہ تعالیٰ سے یہ بھی دعا کرے کہ اس کو قبول فرما دے۔
عمل صالح اور مقبول ہونے کے باوجود جنت میں داخل ہونا بغیر فضل خداوندی کے نہیں ہوگا
وَاَدْخِلْنِيْ بِرَحْمَتِكَ فِيْ عِبَادِكَ الصّٰلِحِيْنَ ، عمل صالح اور اس کے قبول ہونے کے باوجود جنت میں داخل ہونا اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم ہی سے ہوگا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ کوئی شخص اپنے اعمال کے بھروسہ پر جنت میں داخل نہیں ہوگا، صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ آپ بھی، تو آپ نے فرمایا کہ ہاں میں بھی لیکن مجھے میرے خدا کی رحمت اور فضل گھیرے ہوئے ہے۔ (روح المعانی)
حضرت سلیمان ؑ بھی ان کلمات میں دخول جنت کے لئے فضل ربی کی دعا فرما رہے ہیں یعنی اے اللہ، مجھے وہ فضل بھی عطا فرما جس سے جنت کا مستحق ہوجاؤں۔
Top