Maarif-ul-Quran - An-Naml : 20
وَ تَفَقَّدَ الطَّیْرَ فَقَالَ مَا لِیَ لَاۤ اَرَى الْهُدْهُدَ١ۖ٘ اَمْ كَانَ مِنَ الْغَآئِبِیْنَ
وَتَفَقَّدَ : اور اس نے خبر لی (جائزہ لیا) الطَّيْرَ : پرندے فَقَالَ : تو اس نے کہا مَا لِيَ : کیا ہے لَآ اَرَى : میں نہیں دیکھتا الْهُدْهُدَ : ہدہد کو اَمْ كَانَ : کیا وہ ہے مِنَ : سے الْغَآئِبِيْنَ : غائب ہونے والے
اور خبر لی اڑاتے جانوروں کی تو کہا کیا ہے، جو میں نہیں دیکھتا ہدہد کو یا ہے وہ غائب
خلاصہ تفسیر
(اور ایک بار یہ قصہ ہوا کہ) سلیمان ؑ نے پرندوں کی حاضری لی تو (ہدہد کو نہ دیکھا) فرمانے لگے کہ کیا بات ہے کہ میں ہدہد کو نہیں دیکھتا کیا کہیں غائب ہوگیا ہے (اور جب معلوم ہوا کہ واقع میں غائب ہے تو فرمانے لگے) میں اس کو (غیر حاضری پر) سخت سزا دوں گا یا اس کو ذبح کر ڈالوں گا یا وہ کوئی صاف دلیل (اور غیر حاضری کا عذر) میرے سامنے پیش کردے (تو خیر چھوڑ دوں گا) تھوڑی دیر بعد وہ آ گیا اور سلیمان (علیہ السلام سے) کہنے لگا کہ ایسی بات معلوم کر کے آیا ہوں جو آپ کو معلوم نہیں ہوئی اور (اجمالی بیان اس کا یہ ہے کہ) میں آپ کے پاس قبیلہ سبا کی ایک پختہ خبر لایا ہوں (جس کا تفصیلی بیان یہ ہے کہ) میں نے ایک عورت کو دیکھا کہ وہ ان لوگوں پر بادشاہی کر رہی ہے اور اس کو (بادشاہی کے لوازم میں سے) ہر قسم کا سامان حاصل ہے اور اس کے پاس ایک بڑا تخت ہے (اور مذہبی حالت ان کی یہ ہے کہ) میں نے اس (عورت) کو اور اس کی قوم کو دیکھا کہ وہ خدا (کی عبادت) کو چھوڑ کر آفتاب کو سجدہ کرتے ہیں اور شیطان نے ان کے (ان) اعمال (کفر) کو ان کی نظر میں مرغوب کر رکھا ہے (اور ان اعمال بد کو مزین کرنے کے سبب) ان کو راہ (حق) سے روک رکھا ہے اس لئے وہ راہ (حق) پر نہیں چلتے کہ اس خدا کو سجدہ نہیں کرتے جو (ایسا قدرت والا ہے کہ آسمان اور زمین کی پوشیدہ چیزوں کو (جن میں سے بارش اور زمین کی نباتات بھی ہیں) باہر لاتا ہے اور (ایسا جاننے والا ہے کہ) تم لوگ (یعنی تمام مخلوق) جو کچھ (دل میں) پوشیدہ رکھتے ہو اور جو کچھ (زبان اور جسم کے اعضاء سے) ظاہر کرتے ہو وہ سب کو جانتا ہے (اس لئے) اللہ ہی ایسا ہے کہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور وہ عرش عظیم کا مالک ہے سلیمان ؑ نے (یہ سن کر) فرمایا کہ ہم ابھی دیکھ لیتے ہیں کہ تو سچ کہتا ہے یا تو جھوٹوں میں سے ہے (اچھا) میرا یہ خط لے جا اور اس کو ان کے پاس ڈال دینا پھر (ذرا وہاں سے) ہٹ جانا، پھر دیکھنا کہ آپس میں کیا سوال و جواب کرتے ہیں (پھر تو یہاں چلے آنا وہ لوگ جو کچھ کارروائی کریں گے اس سے تیرا سچ جھوٹ معلوم ہوجاوے گا۔)

معارف و مسائل
وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ ، تفقد کے لفظی معنے کسی مجمع کے متعلق حاضر و غیر حاضر کی تحقیق کرنے کے ہیں۔ اس لئے اس کا ترجمہ خبر گیری اور نگہبانی سے کیا جاتا ہے۔ حضرت سلیمان ؑ کو حق تعالیٰ نے انسانوں کے علاوہ جنات اور دحوش و طیور پر حکومت عطا فرمائی تھی اور جیسا کہ حکمرانی کا اصول ہے رعایا کے ہر طبقہ کی نگرانی اور خبر گیری حاکم کے فرائض میں سے ہے اس کے مطابق اس آیت میں بیان فرمایا تَفَقَّدَ الطَّيْرَ یعنی سلیمان ؑ نے اپنی رعایا کے طیور کا معائنہ فرمایا اور یہ دیکھا کہ ان میں کون حاضر ہے کون غیر حاضر رسول اللہ ﷺ کی بھی عادت شریفہ یہ تھی کہ صحابہ کرام کے حالات سے باخبر رہنے کا اہتمام فرماتے تھے جو شخص غیر حاضر ہوتا اگر بیمار ہے تو عیادت کے لئے تشرف لے جاتے تھے تیمار داری کرتے اور کسی تکلیف میں مبتلا ہے تو اس کے لئے تدبیر فرماتے تھے۔
حاکم کو اپنی رعیت کی اور مشائخ کو اپنے شاگردوں اور مریدوں کی خبر گیری ضروری ہے
آیت مذکورہ سے ثابت ہوا کہ حضرت سلیمان ؑ اپنی رعایا کے ہر طبقہ پر نظر رکھتے اور ان کے حالات سے اتنے باخبر رہتے تھے کہ ہدہد جو طیور میں چھوٹا اور کمزور بھی ہے اور اس کی تعداد بھی دنیا میں بہ نسبت دوسرے طیور کے کم ہے وہ بھی حضرت سلیمان ؑ کی نظر سے اوجھل نہیں ہوا، بلکہ خاص ہدہد کے متعلق جو سوال آپ نے فرمایا اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ زمرہ طیور میں کم تعداد اور کمزور ہے، اس لئے اپنی رعیت کے کمزوروں پر نظر رکھنے کا زیادہ اہتمام فرمایا۔ صحابہ کرام میں حضرت فاروق اعظم نے اپنے زمانہ خلافت میں اس سنت انبیاء کو پوری طرح جاری کیا۔ راتوں کو مدینہ منورہ کی گلیوں میں پھرتے تھے کہ سب لوگوں کے حالات سے باخبر رہیں جس شخص کو کسی مصیبت و تکلیف میں گرفتار پاتے اس کی امداد فرماتے تھے جس کے بہت سے واقعات ان کی سیرت میں مذکور ہیں۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ " اگر دریائے فرات کے کنارہ پر کسی بھیڑیئے نے کسی بکری کے بچے کو پھاڑ ڈالا تو اس کا بھی عمر سے سوال ہو گا "۔ (قرطبی)
یہ تھے وہ اصول جہانبانی و حکمرانی جو انبیاء (علیہم السلام) نے لوگوں کو سکھائے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ان کو عملاً جاری کر کے دکھلایا اور جس کے نتیجہ میں پوری مسلم و غیر مسلم رعایا امن و اطمینان کے ساتھ زندگی بسر کرتی تھی، اور ان کے بعد زمین و آسمان نے ایسے عدل و انصاف اور عام دنیا کے امن و سکون اور اطمینان کا یہ منظر نہیں دیکھا۔
مَا لِيَ لَآ اَرَى الْهُدْهُدَ اَمْ كَانَ مِنَ الْغَاۗىِٕـبِيْنَ ، سلیمان ؑ نے فرمایا کہ مجھے کیا ہوگیا کہ میں ہدہد کو مجمع میں نہیں دیکھتا۔
اپنے نفس کا محاسبہ
یہاں موقع تو یہ فرمانے کا تھا کہ ہدہد کو کیا ہوگیا کہ وہ مجمع میں حاضر نہیں۔ عنوان شاید اس لئے بدلا کہ ہدہد اور تمام طیور کا مسخر ہونا حق تعالیٰ کا ایک انعام خاص تھا۔ ہدہد کی غیر حاضری پر ابتداء میں یہ خوف دل میں پیدا ہوا کہ شاید میرے کسی قصور سے اس نعمت میں کمی آئی کہ ایک صنف طیور کی یعنی ہدہد غائب ہوگیا اس لئے اپنے نفس سے سوال کیا کہ ایسا کیوں ہوا ؟ جیسا کہ مشائخ صوفیہ کا معمول ہے کہ جب ان کو کسی نعمت میں کمی آئے یا کوئی تکلیف و پریشانی لاحق ہو تو وہ اس کے ازالہ کے لئے مادی اسباب کی طرف توجہ کرنے سے پہلے اپنے نفس کا محاسبہ کرتے تھے کہ ہم سے اللہ تعالیٰ کے حق شکر میں کونسی کوتاہی ہوئی جس کے سبب یہ نعمت ہم سے لے لی گئی۔ قرطبی نے اس جگہ بحوالہ ابن عربی ان بزرگوں کا یہ حال نقل کیا ہے۔
اذا فقدوا امالھم تفقدوا اعمالھم۔
یعنی ان حضرات کو جب اپنی مراد میں کامیابی نہیں ہوتی تو یہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے ہیں کہ ہم سے کیا قصور سرزد ہوا۔
اس ابتدائی محاسبہ نفس اور غور و فکر کے بعد فرمایا اَمْ كَانَ مِنَ الْغَاۗىِٕـبِيْنَ اس جگہ حرف ام بمعنے بل ہے (قرطبی) معنے یہ ہیں کہ یہ بات نہیں کہ ہدہد کے دیکھنے میں میری نظر نے خطاء کی بلکہ وہ حاضر ہی نہیں۔
طیور میں سے ہدہد کی تخصیص کی وجہ اور ایک اہم عبرت
حضرت عبداللہ بن عباس سے سوال کیا گیا کہ تمام پرندوں میں ہدہد کی تفتیش کی کیا وجہ پیش آئی تو آپ نے فرمایا کہ سلیمان ؑ نے کسی ایسے مقام میں قیام فرمایا جہاں پانی نہیں تھا اور اللہ تعالیٰ نے ہدہد کو یہ خاصیت عطا فرمائی ہے کہ وہ زمین کے اندر کی چیزوں کو اور زمین کے اندر بہنے والے چشموں کو دیکھ لیتا ہے۔ مقصود حضرت سلیمان ؑ کا یہ تھا کہ ہدہد سے یہ معلوم کریں کہ اس میدان میں پانی کتنی گہرائی میں ہے اور کس جگہ زمین کھودنے سے پانی کافی مل سکتا ہے۔ ہدہد کی اس نشاندہی کے بعد وہ جنات کو حکم دیدیتے کہ اس زمین کو کھود کر پانی نکال لو وہ بڑی جلد کھود کر پانی نکال لیتے تھے۔ ہدہد اپنی تیز نظر اور بصیرت کے باوجود شکاری کے جال میں پھنس جاتا ہے اس پر حضرت ابن عباس نے فرمایا۔
قف یا وقاف کیف یری الھدھد باطن الارض وھو لا یری الفخ حین یقع فیہ (قرطبی)
جاننے والو اس حقیقت کو پہچانو کہ ہدہد زمین کی گہرائی کی چیزوں کو دیکھ لیتا ہے مگر زمین کے اوپر پھیلا ہوا جال اس کی نظر سے اوجھل ہوجاتا ہے جس میں پھنس جاتا ہے۔
مقصد یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے جو امر تکلیف یا راحت کا کسی کے لئے مقدر کردیا ہے تو تقدیر الٰہی نافذ ہو کر رہتی ہے کوئی شخص اپنی فہم و بصیرت یا زور و زر کی طاقت کے ذریعہ اس سے نہیں بچ سکتا۔
Top