Maarif-ul-Quran - An-Naml : 21
لَاُعَذِّبَنَّهٗ عَذَابًا شَدِیْدًا اَوْ لَاۡاَذْبَحَنَّهٗۤ اَوْ لَیَاْتِیَنِّیْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ
لَاُعَذِّبَنَّهٗ : البتہ میں ضرور اسے سزا دوں گا عَذَابًا : سزا شَدِيْدًا : سخت اَوْ لَاَاذْبَحَنَّهٗٓ : یا اسے ذبح کر ڈالوں گا اَوْ لَيَاْتِيَنِّيْ : یا اسے ضرور لانی چاہیے بِسُلْطٰنٍ : سند (کوئی وجہ) مُّبِيْنٍ : واضح (معقول)
اس کو سزا دوں گا سخت سزا یا ذبح کر ڈالوں گا یا لائے میرے پاس کوئی سند صریح
لَاُعَذِّبَنَّهٗ عَذَابًا شَدِيْدًا اَوْ لَاَاذْبَحَنَّهٗٓ، ابتدائی غور و فکر کے بعد یہ حاکمانہ سیاست کا مظاہرہ ہے کہ غیر حاضر رہنے والے کو سزا دی جائے۔
جو جانور کام میں سستی کرے اس کو معتدل سزا دینا جائز ہے
حضرت سلیمان ؑ کے لئے حق تعالیٰ نے جانوروں کو ایسی سزائیں دینا حلال کردیا تھا جیسا عام امتوں کے لئے جانوروں کو ذبح کر کے ان کے گوشت پوست وغیرہ سے فائدہ اٹھانا اب بھی حلال ہے۔ اسی طرح پالتو جانور گائے، بیل، گدھا، گھوڑا، اونٹ وغیرہ اپنے کام میں سستی کرے اس کو تادیب کے لئے بقدر ضروتر مارنے کی معتدل سزا اب بھی جائز ہے۔ دوسرے جانوروں کو سزا دینا ہماری شریعت میں ممنوع ہے۔ (قرطبی)
اَوْ لَيَاْتِيَنِّيْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ ، یعنی اگر ہدہد نے اپنی غیر حاضری کا کوئی عذر واضح پیش کردیا تو وہ اس سزا سے محفوظ رہے گا۔ اس میں اشارہ ہے کہ حاکم کو چاہئے کہ جن لوگوں سے کوئی قصور عمل میں سرزد ہوجائے ان کو عذر پیش کرنے کا موقع دے، عذر صحیح ثابت ہو تو سزا کو معاف کر دے۔
Top