Maarif-ul-Quran - An-Naml : 88
وَ تَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَّ هِیَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ١ؕ صُنْعَ اللّٰهِ الَّذِیْۤ اَتْقَنَ كُلَّ شَیْءٍ١ؕ اِنَّهٗ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَفْعَلُوْنَ
وَتَرَى : اور تو دیکھتا ہے الْجِبَالَ : پہاڑ (جمع) تَحْسَبُهَا : تو خیال کرتا ہے انہیں جَامِدَةً : جما ہوا وَّهِىَ : اور وہ تَمُرُّ : چلیں گے مَرَّ السَّحَابِ : بادلوں کی طرح چلنا صُنْعَ اللّٰهِ : اللہ کی کاری گری الَّذِيْٓ : وہ جس نے اَتْقَنَ : خوبی سے بنایا كُلَّ شَيْءٍ : ہر شے اِنَّهٗ : بیشک وہ خَبِيْرٌ : باخبر بِمَا : اس سے جو تَفْعَلُوْنَ : تم کرتے ہو
اور تو دیکھے پہاڑوں کو سمجھے کہ وہ جم رہے ہیں اور وہ چلیں گے جیسے چلے با دل کاری گری اللہ کی جس نے درست کیا ہے ہر چیز کو اس کو خبر ہے جو کچھ تم کرتے ہو
وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَّهِىَ تَمُــرُّ مَرَّ السَّحَابِ ، مراد یہ ہے کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ کر اس طرح چلیں گے جیسے بادل کہ دیکھنے والا اس کو اپنی جگہ جما ہوا سمجھتا ہے حالانکہ وہ تیزی سے چل رہے ہیں۔ تمام بڑے اجسام جن کی ابتداء و انتہاء انسان کی نظر کے سامنے نہیں ہوتی جب وہ کسی ایک سمت کی طرف حرکت کریں تو خواہ حرکت کتنی بھی تیز ہو دیکھنے والوں کو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ وہ اپنی جگہ جمے ہوئے ہیں جس کا مشاہدہ سب کو گہرے بادل اور دور تک چھائی ہوئی گھٹا سے ہوتا ہے کہ یہ بادل اپنی جگہ جمے ہوئے دکھائی دیتے ہیں حالانکہ وہ چل رہے ہوتے ہیں مگر ان کی حرکت دیکھنے والوں کو اس وقت محسوس ہوتی ہے جب وہ اتنی دور چلے جائیں کہ افق کا کنارہ اس سے کھل جائے۔
خلاصہ یہ ہے کہ پہاڑوں کا جامد ہونا دیکھنے والے کی نظر کے اعتبار سے ہے اور اس کا حرکت کرنا حقیقت کے اعتبار سے عامہ مفسرین نے آیت کا مطلب یہی قرار دیا ہے اور خلاصہ تفسیر مذکور میں یہ اختیار کیا گیا ہے کہ یہ دو حال دو وقتوں کے ہیں۔ جامد ہونا اس وقت کے اعتبار سے جس کو دیکھ کر ہر دیکھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ یہ کبھی اپنی جگہ سے نہ ہلیں گے۔ اور تَمُــرُّ مَرَّ السَّحَاب قیامت کے دن کے اعتبار سے ہے۔ بعض علماء نے فرمایا کہ قرآن کریم میں قیامت کے روز پہاڑوں کے حالات مختلف بیان ہوئے ہیں۔ پہلا حال اندکاک اور زلزلہ ہے جو پوری زمین کے پہاڑوں کو محیط ہوگا۔ اِذَا دُكَّتِ الْاَرْضُ دَكًّا اور اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَهَا دوسرا حال اس کی بڑی بڑی چٹانوں کا دھنکی ہوئی روئی کی طرح ہوجانا ہے وَتَكُوْنُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ الْمَنْفُوْشِ اور یہ اس وقت ہوگا جب اوپر سے آسمان بھی پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہوگا زمین سے پہاڑ روئی کی طرح اوپر جائیں گے اوپر سے آسمان نیچے آئیں گے اور دونوں مل جائیں گے يَوْمَ تَكُوْنُ السَّمَاۗءُ كَالْمُهْلِ وَتَكُوْنُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ تیسرا حال یہ ہے کہ وہ دھنکی ہوئی روئی کے ایک جسم متصل کے بجائے ریزہ ریزہ اور ذرہ ذرہ ہوجائے۔ وَّبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا، فَكَانَتْ هَبَاۗءً مُّنْۢبَثًّا، چوتھا حال یہ ہے کہ وہ ریزہ ریزہ ہو کر پھیل جائے فَقُلْ يَنْسِفُهَا رَبِّيْ نَسْفًا پانچواں حال یہ ہے کہ یہ پہاڑ جو ریزہ ریزہ ہو کر غبار کی طرح زمین پر پھیل گئے ہیں ان کو ہوائیں اوپر اٹھا کرلے جائیں اور چونکہ یہ غبار ساری زمین پر چھایا ہوگا تو اگرچہ یہ بادل کی طرح تیز حرکت کرتا ہوگا مگر دیکھنے والا اس کو اپنی جگہ جما ہوا دیکھے گا تَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَّهِىَ تَمُــرُّ مَرَّ السَّحَابِ ان میں سے بعض حالات صور کے نفخہ اولی کے وقت ہوں گے اور بعض نفخہ ثانیہ کے بعد اس وقت جبکہ زمین کو ایک سطح مستوی بنادیا جائے کہ نہ اس میں کوئی غار رہے گا نہ پہاڑ نہ کوئی عمارت نہ درخت فَقُلْ يَنْسِفُهَا رَبِّيْ نَسْفًا، فَيَذَرُهَا قَاعًا صَفْصَفًا، لَّا تَرٰى فِيْهَا عِوَجًا وَّلَآ اَمْتًا (از قرطبی و روح المعانی) واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم بحقیقتہ الحال
صُنْعَ اللّٰهِ الَّذِيْٓ اَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ ، صنع بمعنے صنعت ہے اور اتقن، اتقان سے مشتق ہے جس کے معنے کسی چیز کو مضبوط اور مستحکم کرنے کے آتے ہیں۔ بظاہر یہ جملہ تمام مضامین سابقہ کے ساتھ متعلق ہے جن میں حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور صنعت عجیبیہ کا ذکر ہے جس میں لیل و نہار کا انقلاب بھی ہے اور نفخ صور سے لے کر حشر و نشر تک کے سب حالات بھی اور مطلب یہ ہے کہ یہ چیزیں کچھ حیرت اور تعجب کی نہیں کیونکہ ان کا صانع کوئی محدود علم وقدرت والا انسان یا فرشتہ نہیں بلکہ رب العالمین ہے۔ اور اگر اس کا تعلق قریبی جملے تَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً الآیتہ سے کیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ پہاڑوں کا یہ حال کہ دیکھنے والے ان کو جما ہوا دیکھیں اور وہ واقع میں چل رہے اور حرکت کر رہے ہیں کچھ مستبعد اور جائے تعجب نہیں کیونکہ یہ صنعت اللہ رب العزت کی ہے۔ جس کی قدرت میں سب کچھ ہے۔
Top