Maarif-ul-Quran - An-Naml : 89
مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ خَیْرٌ مِّنْهَا١ۚ وَ هُمْ مِّنْ فَزَعٍ یَّوْمَئِذٍ اٰمِنُوْنَ
مَنْ جَآءَ : جو آیا بِالْحَسَنَةِ : کسی نیکی کے ساتھ فَلَهٗ : تو اس کے لیے خَيْرٌ : بہتر مِّنْهَا : اس سے وَهُمْ : اور وہ مِّنْ فَزَعٍ : گھبراہٹ سے يَّوْمَئِذٍ : اس دن اٰمِنُوْنَ : محفوظ ہوں گے
جو کوئی لے کر آیا بھلائی تو اس کو ملے اس سے بہتر اور ان کو گھبراہٹ سے اس دن امن ہے
مَنْ جَاۗءَ بالْحَسَنَةِ فَلَهٗ خَيْرٌ مِّنْهَا، یہ حشر و نشر اور حساب کتاب کے بعد پیش آنے والے انجام کا ذکر ہے اور حسنہ سے مراد کلمہ لا الہ الا اللہ ہے (کما قال ابراہیم) یا اخلاص ہے (کما قال قتادہ) اور بعض حضرات نے مطلق اطاعت کو اس میں داخل قرار دیا ہے۔ معنے یہ ہیں کہ جو شخص نیک عمل کرے گا اور نیک عمل اسی وقت نیک کہلانے کے قابل ہوتا ہے جبکہ اس کی پہلی شرط ایمان موجود ہو تو اس کو اپنے عمل سے بہتر چیز ملے گی مراد اس سے جنت کی لازوال نعمتیں اور عذاب اور ہر تکلیف سے دائمی نجات ہے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ خیر سے مراد یہ ہے کہ ایک نیکی کی جزاء دس گنے سے لے کر سات سو گنے تک ملے گی۔ (مظہری)
وَهُمْ مِّنْ فَزَعٍ يَّوْمَىِٕذٍ اٰمِنُوْنَ ، فزع، سے مراد ہر بڑی مصیبت اور پریشانی اور گھبراہٹ سے مطلب یہ ہے کہ دنیا میں تو ہر متقی پرہیزگار بھی انجام سے ڈرتا رہتا ہے اور ڈرنا ہی چاہئے جیسے قرآن کریم کا ارشاد ہے اِنَّ عَذَابَ رَبِّهِمْ غَيْرُ مَاْمُوْنٍ ، یعنی رب کا عذاب ایسا نہیں کہ اس سے کوئی بےفکر اور مطمئن ہو کر بیٹھ جائے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) اور صحابہ و اولیاء امت ہمیشہ خائف و لرزاں رہتے تھے مگر اس روز جبکہ حساب کتاب سے فراغت ہوچکے گی تو حسنہ لانے والے نیک لوگ ہر خوف و غم سے بےفکر اور مطمئن ہوں گے۔ واللہ اعلم
Top