Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 104
وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
وَلْتَكُنْ : اور چاہیے رہے مِّنْكُمْ : تم سے (میں) اُمَّةٌ : ایک جماعت يَّدْعُوْنَ : وہ بلائے اِلَى : طرف الْخَيْرِ : بھلائی وَيَاْمُرُوْنَ : اور وہ حکم دے بِالْمَعْرُوْفِ : اچھے کاموں کا وَيَنْهَوْنَ : اور وہ روکے عَنِ الْمُنْكَرِ : برائی سے وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی لوگ ھُمُ : وہ الْمُفْلِحُوْنَ : کامیاب ہونے والے
اور چاہئے کہ رہے تم میں ایک جماعت ایسی جو بلاتی رہے نیک کام کی طرف اور حکم کرتی رہے اچھے کاموں کا اور منع کریں برائی سے اور وہی پہنچے اپنی مراد کو
ربط آیات
پچھلی دو آیتوں میں مسلمانوں کے اجتماعی فلاح و صلاح کے دو اصول بتلائے گئے تھے جن میں ہر فرد کو ایک خاص انداز سے اپنی اصلاح کرنے کی ہدایت تھی کہ ہر شخص تقوی اختیار کرے، اور اللہ تعالیٰ کے سلسلہ (اسلام) سے مربوط ہوجائے اس طرح انفرادی اصلاح کے ساتھ ساتھ خودبخود ایک اجتماعی قوت بھی مسلمانوں کو حاصل ہوجائے گی، مذکورہ دو آیتوں میں اسی نظام صلاح و فلاح کا تکملہ اس طرح کیا گیا ہے کہ مسلمان صرف اپنے اعمال و افعال کی اصلاح پر بس نہ کریں، بلکہ اپنے دوسرے بھائیوں کی اصلاح کی فکر بھی ساتھ ساتھ کریں، اسی صورت سے پوری قوم کی اصلاح بھی ہوگی، اور ربط و اتحاد کو بقاء و قیام بھی ہوگا۔
خلاصہ تفسیر
اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونا ضروری ہے کہ (اور لوگوں کو بھی) خیر کی طرف بلایا کریں اور نیک کاموں کے کرنے کو کہا کریں اور برے کاموں سے روکا کریں اور ایسے لوگ (آخرت میں ثواب سے) پورے کامیاب ہوں گے، اور تم لوگ ان لوگوں کی طرح مت ہوجانا جنہوں نے (دین میں) باہم تفریق کرلی اور (نفسانیت سے) باہم اختلاف کرلیا، ان کے پاس واضح احکام پہنچنے کے بعد اور ان لوگوں کے لئے سزائے عظیم ہوگی (یعنی قیامت کے روز)۔
معارف و مسائل
مسلمانوں کی قومی اور اجتماعی فلاح دو چیزوں پر موقوف ہے
پہلے تقوی اور اعتصام بحبل اللہ کے ذریعہ اپنی اصلاح دوسرے دعوت و تبلیغ کے ذریعہ دوسروں کی اصلاح۔ آیت ولتکن منکم میں اسی دوسری ہدایت کا بیان ہے، گویا ان دونوں آیتوں کا خلاصہ یہ ہوا کہ خود بھی اپنے اعمال و اخلاق کو اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے قانون کے مطابق درست کرو، اور اپنے دوسرے بھائیوں کے اعمال کو درست کرنے کی بھی فکر رکھو، یہی مضمون ہے جو سورة والعصر میں ارشاد فرمایا ہےالا الذین امنوا و عملوا الصلحت وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر۔ " یعنی آخرت کے خسارہ سے صرف وہ لوگ محفوظ ہیں جو خود بھی ایمان اور عمل صالح کے پابند ہیں اور دوسروں کو بھی عقائد صحیحہ اور اعمال صالحہ کی ہدایت کرتے رہتے ہیں "۔ قومی اور اجتماعی زندی کے لئے جس طرح یہ ضروری تھا کہ ان کا کوئی مضبوط و مستحکم رشتہ وحدت ہو، جس کو پہلی آیت میں اعتصام بحبل اللہ کے الفاظ سے واضح فرمایا گیا ہے، اسی طرح رشتہ کو قائم اور باقی رکھنے کے لئے یہ دوسرا عمل بھی ضروری ہے جو اس آیت میں ارشاد فرمایا گیا ہے، یعنی دوسرے بھائیوں کو احکام قرآن و سنت کے مطابق اچھے کاموں کی ہدایت اور برے کاموں سے روکنے کو ہر شخص اپنا فریضہ سمجھے، تاکہ یہ حبل اللہ اس کے ہاتھ سے چھوٹ نہ جائے، کیونکہ بقول استاد مرحوم شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی " اللہ تعالیٰ کی یہ رسی ٹوٹ تو نہیں سکتی ہاں چھوٹ سکتی ہے " اس لئے قرآن کریم نے اس رسی کے چھوٹ جانے کے خطرے کے پیش نظر یہ ہدایت جاری فرمائی کہ ہر مسلمان جس طرح خود نیک عمل کرنے کو اور گناہ سے بچنے کو اپنا فرض سمجھتا ہے اس کو بھی ضروری سمجھے کہ دوسرے لوگوں کو بھی نیک عمل کی ہدایت اور برے اعمال سے روکنے کی کوشش کرتا رہے، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ یہ سب ملکر مضبوطی کے ساتھ حبل متین کو تھامے رہیں گے، اور اس کے نتیجہ میں فلاح دنیا و آخرت ان کے ساتھ ہوگی، اپنی اصلاح کے ساتھ دوسروں کی اصلاح کی ذمہ داری ہر مسلمان پر ڈالنے کے لئے قرآن کریم میں بہت سے واضح ارشادات وارد ہیں۔ سورة العصر کا مضمون ابھی آپ دیکھ چکے ہیں اور اسی سورة آل عمران میں ارشاد ہےکنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنھون عن المنکر۔ (3: 110) " تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے نکالی گئی ہے کیونکہ تم نیک کاموں کا لوگوں کو حکم کرتے ہور اور برے کاموں سے روکتے ہو "۔ اس میں بھی پوری امت پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ عائد کیا گیا ہے، اور دوسری امتوں پر اس کی فضیلت کا سبب ہی اس خاص کام کو بتلایا ہے، اسی طرح رسول کریم ﷺ کے ارشادات اس بارے میں بیشمار ہیں، ترمذی اور ابن ماجہ وغیرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاوالذی نفسی بیدہ لتامرون بالمعروف و تنھون عن المنکر او لیوشکن اللہ ان یبعث علیکم عقابا من عندہ ثم لتدعنہ فلا یستجیب لکم۔ " قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ تم ضرور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہو، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ گنہگاروں کے ساتھ تم سب پر بھی اپنا عذاب بھیج دے اس وقت تم اللہ تعالیٰ سے دعا مانگو گے تو قبول نہ ہوگی۔ ایک حدیث میں رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہےمن رای منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ وان لم یستطع فبقلبہ وذلک اضعف الایمان۔ " یعنی تم میں سے جو شخص کوئی گناہ ہوتا ہوا دیکھے تو اس کو چاہے کہ اپنے ہاتھ اور قوت سے اس کو روک دے، اور اگر یہ بھی نہ کرسکے تو زبان سے روکے اور یہ بھی نہ کرسکے تو کم از کم دل میں اس فعل کو برا سمجھے، اور یہ ادنی درجہ کا ایمان ہے "۔
ان تمام آیات اور روایات سے یہی ثابت ہوا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر امت کے ہر فرد پر لازم ہے، البتہ تمام احکام شرعیہ کی طرح اس میں بھی ہر شخص کی قدرت و استطاعت پر احکام دائر ہوں گے جس کو جتنی قدرت ہو اتنا ہی امر بالمعروف کا فریضہ اس پر عائد ہوگا ابھی جو حدیث آپ نے دیکھی ہے اس میں استطاعت ہی پر مدار رکھا گیا ہے۔ پھر استطاعت وقدرت ہر کام کی جدا ہوتی ہے، امر بالمعروف کی قدرت پہلے تو اس پر موقوف ہے کہ وہ معروف و منکر اس شخص کو پوری طرح صحیح صحیح معلوم ہو، جس کو خود ہی معروف و منکر کی تمییز نہ ہو یا اس مسئلہ کا پورا علم نہ ہو، وہ اگر دوسروں کو امر بالمعروف یا نہی عن المنکر کرنے لگے تو ظاہر ہے کہ بجائے اصلاح ہونے کے فساد ہوگا، اور بہت ممکن ہے کہ وہ اپنی ناواقفیت کی بناء پر کسی معروف کو منع کرنے لگے، یا منکر کا حکم کرنے لگے، اس لئے جو شخص خود معروف و منکر سے واقف نہیں اس پر یہ فریضہ تو عائد ہے کہ واقفیت اور احکام شرعیہ کے معروف و منکر کا علم حاصل کرلے، اور پھر اس کے مطابق امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی خدمت انجام دے۔ لیکن جب تک اس کو واقفیت نہیں اس کا اس خدمت کے لئے کھڑا ہونا جائز نہیں جیسے اس زمانہ میں بہت سے جاہل وعظ کہنے کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں نہ انہیں قرآن کا علم ہے نہ حدیث کا، یا بہت سے عوام سنی سنائی غلط باتوں کو لے کر لوگوں سے جھگڑنے لگتے ہیں کہ ایسا کرو ایسا نہ کرو، یہ طریق کار بجائے معاشرہ کے درست کرنے کے اور زیادہ ہلاکت اور جنگ و جدل کا سبب ہوتا ہے۔ اسی طرح امر بالمعروف کی قدرت میں یہ بھی داخل ہے کہ اپنے آپ کو کوئی ناقابل برداشت ضرر پہنچنے کا قوی خطرہ نہ ہو، اسی لئے حدیث میں ارشاد فرمایا گیا کہ گناہ کو ہاتھ اور قوت سے نہ روک سکے تو زبان سے روکے، اور زبان سے روکنے پر قدرت نہ ہو تو دل ہی سے برا سمجھے ظاہر ہے کہ زبان سے روکنے پر قدرت نہ ہونے کے یہ معنی تو ہیں نہیں کہ اس کی زبان حرکت نہیں کرسکتی، بلکہ مراد یہی ہے کہ اس کو یہ خطرہ قوی ہے کہ اس نے حق بات کی تلقین کی تو اس کی جان جائے گی، یا کوئی دوسرا شدید نقصان پہنچ جائے گا، ایسی حالت میں اس شخص کو قادر نہ سمجھا جائے گا، اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ترک پر اس کو گنہگار نہ کہا جائے گا، یہ دوسری بات ہے کہ اللہ کی راہ میں اپنی جان و مال کی پرواہ نہ کرے، اور نقصان برداشت کر کے بھی امر بالمعروف نہی عن المنکر کی خدمت انجام دے، جیسے بہت سے صحابہ وتابعین اور ائمہ اسلام کے واقعات منقول ہیں، یہ ان کی اولوا العزمی اور بڑی فضیلت ہے، جس سے ان کا مقام دنیا و آخرت میں بلند ہوا، مگر ان کے ذمہ ایسا کرنا فرض واجب نہ تھا۔
سورة والعصر کی آیت اور کنتم خیر امۃ (3: 110) وغیرہ آیات سے، نیز احادیث مذکورہ سے امت کے ہر فرد پر اس کی قدرت کے مطابق امر بالمعروف اور نہی عن المنکر واجب کیا جارہا ہے، لیکن اس کے وجوب میں یہ تفصیل ہے کہ امور واجبہ میں معروف کا امر اور منکر سے نہی کرنا واجب اور امور مستحبہ میں مستحب ہے، مثلا نماز پنجگانہ فرض ہے تو ہر شخص پر واجب ہوگا کہ بےنمازی کو نصیحت کرے اور نوافل مستحب ہیں، اس کی نصیحت کرنا مستحب ہوگا، اس کے علاوہ ایک ضروری ادب یہ بھی پیش نظر رکھنا ہوگا کہ مستحبات میں مطلقا نرمی سے اظہار کرے اور واجبات میں اولا نرمی سے اور نہ ماننے پر سختی کی بھی گنجائش ہے، آج کل لوگ مستحبات میں یا مباحات میں تو سختی سے روک ٹوک کرتے ہیں لیکن امور واجبہ اور فرائض کے ترک پر کوئی ملامت نہیں کرتے۔ نیز ہر شخص پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ اس وقت عائد ہوگا جبکہ وہ اپنے سامنے کسی منکر کو ہوتے ہوئے دیکھے، مثلا ایک شخص دیکھ رہا ہے کہ کوئی مسلمان شراب پی رہا ہے یا چوری کر رہا ہے یا کسی غیر عورت سے مجرمانہ اختلاط کر رہا ہے، تو اس کے ذمہ واجب ہوگا کہ اپنی استطاعت وقدرت کے مطابق اس کو روکے، اور اگر اس کے سامنے یہ سب کچھ نہیں ہورہا ہے تو یہ فریضہ اس کے ذمہ نہیں، بلکہ اب یہ فریضہ اسلامی حکومت کا ہے کہ مجرم کے جرم کی تفتیش و تحقیق کر کے اس کو سزا دے۔
نبی کریم ﷺ کے ارشاد من رای منکم میں اسی طرف اشارہ ہے کیونکہ اس میں ارشاد ہے کہ جو شخص تم میں سے کسی منکر کو دیکھے۔
امر بالمعروف کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں سے ایک جماعت خاص دعوت و ارشاد ہی کے لئے قائم رہے اس کا وظیفہ یہ یہی ہو کہ اپنے قول و عمل سے لوگوں کو قرآن و سنت کی طرف بلائے، اور جب لوگوں کو اچھے کاموں میں سست یا برائیوں میں مبتلا دیکھے اس وقت بھلائی کی طرف متوجہ کرنے اور برائی سے روکنے کی اپنے مقور کے موافق کوتاہی نہ کرے، اور چونکہ اس اہم فریضہ یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو پوری طرح اسی وقت ادا کیا جاسکتا ہے جب کہ اس کو مسائل کا پورا علم بھی ہو اور امر بالمعروف کو موثر بنانے کے آداب اور طریقے بھی سنت کے مطابق اس کو معلوم ہوں، اس لئے مکمل طور پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے کے لئے مسلمانوں میں سے ایک مخصوص جماعت کو اس منصب پر مامور کیا گیا، جو ہر طرح دعوت الی الخیر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہل ہو، چناچہ اسی آیت میں ایسی جماعت کی ضرورت اور اہمت کو بتلاتے ہوئے فرمایا
ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر ویامرون بالمعروف وینھون عن المنکر۔ " یعنی تم میں ایک جماعت ایسی ہونا ضروری ہے کہ خیر کی طرف بلایا کریں اور نیک کاموں کے کرنے کو کہا کریں اور برے کاموں سے روکا کریں "۔ ولتکن منکم امۃ میں اشارہ ہے کہ اس جماعت کا وجود ضروری ہے، اگر کوئی حکومت یہ فریضہ انجام نہ دے تو تمام مسلمانوں پر فرض ہوگا کہ وہ ایسی جماعت قائم کریں کیونکہ ان کی حیات ملی اسی وقت محفوظ رہے گی جب تک یہ جماعت باقی ہے، پھر اس جماعت کے بعض اہم اوصاف اور امتیازات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا یدعون الی الخیر یعی اس جماعت کا پہلا امتیاز خصوصی یہ ہوگا کہ وہ خیر کی طرف دعوت دیا کرے گی، گویا دعوت الی الخیر اس کا مقصد اعلی ہوگا، خیر سے مراد کیا ہے، رسول کریم ﷺ نے اس کی تفسیر میں ارشاد فرمایا کہ الخیر ھو اتباع القران وسنتی، " یعنی خیر سے مراد قرآن اور میری سنت کا اتباع ہے "۔ (ابن کثیر)
" خیر " کی اس سے زیادہ جامع اور مانع تعریف نہیں ہوسکتی، پورا دین شریعت اس میں آگیا پھر یدعون کو صیغہ مضارع سے لاکر بتلایا کہ اس جماعت کا وظیفہ دعوت الی الخیر ہوگا، یعنی دعوت الی الخیر کی مسلسل اور لگاتار کوشش ان کا فریضہ ہوگا۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے تو یہ سمجھا جاسکتا تھا کہ اس کی ضرورت خاص مواقع پر ہوگی، جب وہ منکرات دیکھے جائیں، لیکن یدعون الی الخیر کہہ کر بتلادیا کہ اس جماعت کا کام دعوت الی الخیر ہوگا، اگرچہ اس وقت منکرات موجود نہ ہوں، یا کسی فرض کی ادائیگی کا وقت نہ ہو، مثلا آفتاب نکلنے کے بعد زوال تک نماز کا وقت نہیں ہے، لیکن وہ جماعت اس وقت بھی نماز پڑھنے کی تلقین کرے گی کہ وقت نماز آنے کے بعد نماز ادا کرنا ضروری ہے یا روزہ کا وقت نہیں آیا ابھی رمضان کا مہینہ دور ہے، لیکن وہ جماعت اپنے فرض سے غافل نہیں رہے گی، بلکہ وہ پہلے سے لوگوں کو بتلاتی رہے گی کہ جب رمضان کا مہینہ آئے تو روزہ رکھنا فرض ہوگا، غرضیکہ اس جماعت کا فریضہ دعوت الی الخیر ہوگا۔ پھر اس دعوت الی الخیر کے بھی دو رجے ہیں، پہلا یہ کہ غیر مسلموں کو خیر یعنی اسلام کی طرف دعوت دینا ہے مسلمانوں کا ہر فرد عموما اور یہ جماعت خصوصا دنیا کی تمام قوموں کو خیر یعنی اسلام کی دعوت دے، زبان سے بھی اور عمل سے بھی، چناچہ مسلمانوں کو جس آیت میں قتال و جہاد کا حکم دیا وہاں سچے مومنین کی اس طرح تعریف کی
الذین ان مکنھم فی الارض اقاموا الصلوۃ واتوا الزکوۃ وامروا بالمعروف ونھوا عن المنکر۔ (22: 41) " یعنی سچے مسلمان وہ ہیں کہ جب ہم ان کو زمین کی تمکین وقدرت یعنی حکومت دیتے ہیں تو ان کا پہلا کام یہ ہوتا ہے کہا اللہ کی زمین میں نظام اطاعت قائم کرتے ہیں جس کا ایک مظہر نماز ہے اور اپنا مالیاتی نظام زکوٰۃ کے اصولوں پر قائم کرتے ہیں، نیز امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو اپنا مقصد حیات بناتے ہیں، اگر آج امت مسلمہ اپنا مقصد دیگر اقوام کو خیر کی طرف دعوت دینا بنالیں تو وہ سب بیماریاں ختم ہوجائیں گی جو دوسری قوموں کی نقالی سے ہمارے اندر پھیلی ہیں، کیونکہ جب کوئی قوم اس عظیم مقصد (دعوت الی الخیر) پر مجتمع ہوجائے اور یہ سمجھ لے کہ ہمیں علمی اور عملی حیثیت سے اقوام عالم پر غالب آنا ہے اور اقوام کی تربیت و تہذیب ہمارے ذمہ ہے تو اس کی نااتفاقیاں بھی یکسر ختم ہوجائیں گی، اور پوری قوم ایک عظیم مقصد کے حصول کے لئے لگ جائے گی، رسول کریم ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی کامیابیوں کا راز اسی میں مضمر تھا، حدیث میں ہے کہ حضرت ضحاک نے یہ آیت ولتکن منکم تلاوت فرمائی اور پھر فرمایا ھم خاصۃ اصحاب رسول اللہ ﷺ (ابن جریر) یعنی یہ جماعت مخصوص صحابہ کرام کی جماعت ہے، کیونکہ ان نفوس قدسیہ کا ہر فرد خود کو دعوت الی الخیر کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔ دعوت الی الخیر کا دوسرا درجہ خود مسلمانوں کو دعوت خیر دینا ہے، کہ تمام مسلمان علی العموم اور جماعت خاصہ علی الخصوص مسلمانوں کے درمیان تبلیغ اور فریضہ دعوت الی الخیر انجام دے، پھر اس میں بھی ایک تو دعوت الی الخیر عام ہوگی، یعنی تمام مسلمانوں کو ضروری احکام و اسلامی اخلاق سے واقف کیا جائے، دوسری دعوت الی الخیر خاص ہوگی یعنی امت مسلمہ میں علوم قرآن و سنت کے ماہرین پیدا کرنا، اس طرف ایک دوسری آیت میں رہنمائی کی گئیفلو لا نفر من کل فرقۃ منھم طائفۃ لیتفقھوا فی الدین ولینذروا قومھم اذا رجعوا الیھم لعلھم یحذرون۔ (9: 122) آگے اس جماعت داعیہ کا دوسرا وصف اور امتیاز خصوصی یہ بتلایا یامرون بالمعروف وینھون عن المنکر یعنی وہ لوگ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور منکر سے روکتے ہیں۔ معروف وہ تمام نیکیاں اور بھلائیاں داخل ہیں جن کا اسلام نے حکم دیا ہے اور ہر نبی نے ہر زمانے میں اس کی ترویج کی کوشش کی، اور چونکہ یہ امور خیر جانے پہچانے ہوئے ہیں اس لئے معروف کہلاتے ہیں۔
اسی طرح منکر میں تمام وہ برائیاں اور مفاسد داخل ہیں جن کو رسول کریم ﷺ کی طرف سے ناجائز قرار دینا معلوم و معروف ہے، اس مقام پر واجبات اور معاصی کے بجائے معروف و منکر کا عنوان اختیار کرنے میں شاید یہ حکمت بھی ہو کہ روکنے ٹوکنے کا معاملہ صرف ان مسائل میں ہوگا جو امت میں مشہور و معروف ہیں اور سب کے نزدیک متفق علیہ ہیں، اجتہادی مسائل جن میں اصول شرعیہ کے ماتحت رائیں ہوسکتی ہیں، ان میں یہ روک ٹوک کا سلسلہ نہ ہونا چاہیے، افسوس ہے کہ عام طور پر اس حکیمانہ تعلیم سے غفلت برتی جاتی ہے اور اجتہادی مسائل کو جدال کا میدان بنا کر مسلمانوں کی جماعت کو ٹکرایا جاتا ہے، اور اس کو سب سے بڑی نیکی قرار دیا جاتا ہے، اور اس کے بالمقابل متفق علیہ معاصی اور گناہوں سے روکنے کی طرف توجہ بہت کم دی جاتی ہے، آیت کے اختتام پر اس جماعت کے انجام اور عاقبت محمودہ کو ان لفظوں میں فرمایا واولئک ھم المفلحون، یعنی درحقیقت یہ لوگ کامیاب ہیں، فلاح وسعادت دارین انہی کا حصہ ہے۔ اس جماعت کا سب سے پہلا مصداق جماعت صحابہ ہے، جو دعوت الی الخیر اور امر بالمروف اور نہی عن المنکر کے عظیم مقصد کو لے کر اٹھی اور قلیل عرصہ میں ساری دنیا پر چھا گئی، روم و ایران کی عظیم سلطنتیں روند ڈالیں، اور دنیا کو اخلاق و پاکیزگی کا درس دیا، نیکی اور تقوی کی شمعیں روشن کیں۔
Top