Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 98
قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لِمَ تَكْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ١ۖۗ وَ اللّٰهُ شَهِیْدٌ عَلٰى مَا تَعْمَلُوْنَ
قُلْ : کہ دیں يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ : اے اہل کتاب لِمَ : کیوں تَكْفُرُوْنَ : تم انکار کرتے ہو بِاٰيٰتِ : آیتیں اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ شَهِيْدٌ : گواہ عَلٰي : پر مَا تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو
تو کہہ اے اہل کتاب کیوں منکر ہوتے ہو اللہ کے کلام سے اور اللہ کے روبرو ہے جو تم کرتے ہو
ربط آیات
اوپر سے اہل کتاب کے عقائد فاسدہ اور ان کے شبہات پر کلام چل رہا تھا، درمیان میں بیت اللہ اور حج کا تذکرہ آیا، آگے پھر اہل کتاب ہی سے خطاب ہے جس کا تعلق ایک خاص واقعہ سے ہے، کہ ایک یہودی شماس بن قیس مسلمانوں سے بہت کینہ رکھتا تھا، اس نے ایک مجلس میں انصار کے دو قبیلوں اوس اور خزرج کو ایک جگہ مجتمع و متفق دیکھا تو حسد سے بےچین ہوگیا، اور ان میں تفریق ڈالنے کی فکر میں لگا، آخر یہ تجویز کی کہ ایک شخص سے کہا کہ ان دونوں قبیلوں میں اسلام سے پہلے جو ایک بڑی جنگ عرصہ دراز تک رہ چکی ہے، اور اس کے متعلق فریقین کے فخریہ اشعار ہیں وہ اشعار ان کی مجلس میں پڑھ دیئے جائیں۔ چناچہ اشعار کا پڑھنا تھا فورا ایک آگ سی بھڑک اٹھی، اور آپس میں چناں چنیں ہونے لگی، یہاں تک کہ موقع اور وقت لڑائی کا پھر مقرر ہوگیا۔ حضور ﷺ کو خبر ہوئی تو آپ ﷺ ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ اندہیر ہے، میرے ہوتے ہوئے پھر مسلمان ہونے اور باہم متفق و مانوس ہونے کے بعد یہ کیا جہالت ہے، کیا تم اسی حالت میں کفر کی طرف عود کرنا چاہتے ہو ؟ سب متنبہ ہوئے اور سمجھا کہ یہ شیطانی حرکت تھی، اور ایک دوسرے کے گلے لگ کر بہت روئے اور توبہ کی، اس واقعہ میں یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ اس واقعہ کو روح المعانی میں بروایت ابن اسحاق اور ایک جماعت نے زید بن اسلم سے روایت کیا ہے، یہ مضمون کئی آیتوں تک چلا گیا ہے، جس میں اول ملامت ہے ان اہل کتاب پر جنہوں نے یہ کارروائی کی تھی اور یہ ملامت بڑی بلاغت سے کی گئی، کہ اس فعل پر ملامت ہے پہلے ان کے کفر پر بھی ملامت کی، جس کا حاصل یہ ہوا کہ چاہئے تو یہ تھا کہ خود بھی مسلمان ہوجائے نہ یہ کہ دوسروں کے گمراہ کرنے کی فکر میں لگ رہے، پھر خطاب و فہمائش مسلمانوں کو ہے۔
خلاصہ تفسیر
(اے محمد ﷺ آپ (ان اہل کتاب سے) فرما دیجیے کہ اے اہل کتاب تم (بعد ظہور حجت حقانیت اسلام کے) کیوں انکار کرتے ہو اللہ تعالیٰ کے احکام کا (اصول و فروع اس میں سب آگئے) حالانکہ اللہ تعالیٰ تمہارے سب کاموں کی اطلاع رکھتے ہیں (تم کو اس سے بھی ڈر نہیں لگتا، اور اے محمد ﷺ ان سے یہ بھی) فرما دیجیے کہ اے اہل کتاب کیوں (ہٹانے کی کوشش کرتے) ہو اللہ کی راہ (یعنی اس کے دین حق) سے ایسے شخص کو جو (اس دین حق کے ہونے پر) ایمان لاچکا اس طور پر کہ کجی (کی باتیں) ڈھوندتے ہو اس راہ کے (اندر پیدا کرنے کے) لئے (جیسا کہ قصہ مذکورہ میں کوشش کی تھی کہ اس کارروائی سے ان کے دین کے اندر بوجہ نااتفاقی کہ گناہ بھی ہے اور اجتماعی قوت کی بربادی بھی، اور یہ کہ ان بکھیڑوں میں پڑ کر دین حق سے ان کو بعد ہوجاوے گا) حالانکہ تم خود بھی (اس حرکت کے قبیح ہونے کی) اطلاع رکھتے ہو، اور اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں سے بیخبر نہیں (وقت معین پر اس کی سزا دیں گے) اے ایمان والو اگر تم کہنا مانو گے کسی فرقہ کا ان لوگوں میں سے جن کو کتاب دی گئی ہے (یعنی اہل کتاب میں سے) تو وہ لوگ تمہارے ایمان لائے پیچھے (اعتقادا یا عملا) کافر بنادیں گے اور (بھلا) تم کفر کیسے کرسکتے ہو (یعنی تمہارے لئے کب روا ہوسکتا ہے) حالانکہ (اسباب مانع کفر کے پورے جمع ہیں کیونکہ) تم کو اللہ تعالیٰ کے احکام (قرآن میں) پڑھ کر سنائے جاتے ہیں اور (پھر) اللہ کا رسول ﷺ موجود ہیں (اور دونوں قوی ذرائع ہیں ایمان پر قائم رہنے کے، پس تم کو چاہئے کہ ان دونوں ذریعوں کی تعلیم تلقین کے موافق ایمان پر اور ایمان کی باتوں پر قائم رہو) اور (یاد رکھو کہ) جو شخص اللہ تعالیٰ کو مضبوط پکڑتا ہے (یعنی ایمان پر پورا قائم رہتا ہے، کیونکہ اللہ کو مضبط پکڑنا یہی ہے کہ اس کی ذات وصفات کی تصدیق کرے، اس کے احکام کو مضبوط پکڑے، کسی دوسرے مخالف کی موافقت نہ کرے) تو (ایسا شخص) ضرور راہ راست کی ہدایت کیا جاتا ہے (یعنی وہ راہ راست پر ہوتا ہے، اور راہ راست پر ہونا اصل ہے ہر صلاح و فلاح کی، پس اس میں ایسے شخص کے لئے ہر صلاح کی بشارت و وعدہ ہے)۔
Top