Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 97
فِیْهِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰهِیْمَ١ۚ۬ وَ مَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا١ؕ وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًا١ؕ وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ
فِيْهِ
: اس میں
اٰيٰتٌ
: نشانیاں
بَيِّنٰتٌ
: کھلی
مَّقَامُ
: مقام
اِبْرٰهِيْمَ
: ابراہیم
وَمَنْ
: اور جو
دَخَلَهٗ
: داخل ہوا اس میں
كَانَ
: ہوگیا
اٰمِنًا
: امن میں
وَلِلّٰهِ
: اور اللہ کے لیے
عَلَي
: پر
النَّاسِ
: لوگ
حِجُّ الْبَيْتِ
: خانہ کعبہ کا حج کرنا
مَنِ
: جو
اسْتَطَاعَ
: قدرت رکھتا ہو
اِلَيْهِ
: اس کی طرف
سَبِيْلًا
: راہ
وَمَنْ
: اور جو۔ جس
كَفَرَ
: کفر کیا
فَاِنَّ
: تو بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
غَنِىٌّ
: بےنیاز
عَنِ
: سے
الْعٰلَمِيْنَ
: جہان والے
اس میں نشانیاں ہیں ظاہر جیسے مقام ابراہیم اور جو اس کے اندر آیا اس کو امن ملا اور اللہ کا حق ہے لوگوں پر حج کرنا اس گھر کا جو شخص قدرت رکھتا ہو اس کی طرف راہ چلنے کی اور جو نہ مانے تو پھر اللہ پر واہ نہیں رکھتا جہان کے لوگوں کی۔
خلاصہ تفسیر
اس میں (کچھ تشریعی کچھ تکوینی) کھلی نشانیاں (اس کی افضلیت کی موجود) ہیں (چنانچہ تشریعی نشانیوں میں اس کا مبارک اور ہدی بتفسیر مذکور ہونا بیان ہوچکا اور کچھ مقام ابراہیم کے بعد مذکور ہیں یعنی اس میں داخل ہونے والے کا مستحق امن ہوجانا اور اس کا حج بشرائطہ فرض ہونا جو کہ مطلق مشروعیۃ مذکورہ سابق پر زائد مفہوم ہے۔ یہ چار نشانیاں تو تشریعی اس جگہ مذکور ہیں، اب درمیان میں تکوینی کا ذکر فرماتے ہیں کہ) منجملہ ان (نشانیوں) کے ایک مقام ابراہیم (نشانی) ہے، اور (ایک تشریعی نشانی یہ ہے کہ) جو شخص اس (کے حدود متعلقہ) میں داخل ہوجاوے وہ (شرعا) امن والا ہوجاتا ہے اور (ایک تشریعی نشانی یہ ہے کہ) اللہ کے (خوش کرنے کے) واسطے لوگوں کے ذمہ اس مکان کا حج کرنا (فرض) ہے (مگر سب کے ذمہ نہیں بلکہ خاص خاص) یعنی اس شخص کے جو کہ طاقت رکھے وہاں تک (پہنچنے) کے سبیل کی اور جو شخص (احکام خداوندی کا) منکر ہو تو (خدا تعالیٰ کا کیا ضرر کیونکہ) اللہ تعالیٰ تمام جہان والوں سے غنی ہیں (کسی کا ماننے پر ان کا کوئی کام اٹکا نہیں پڑا بلکہ خود اس منکر ہی کا ضرر ہے)۔
معارف و مسائل
بیت اللہ کی تین خصوصیات
اس آیت میں بیت اللہ یعنی کعبہ کی خصوصیت اور فضائل بیان کئے گئے ہیں، ایک یہ کہ اس میں اللہ کی قدرت کی بہت سی نشانیاں ہیں، منجملہ ان کے مقام ابراہیم ہے، دوسرے یہ کہ جو شخص اس میں داخل ہوجائے وہ امن والا اور محفوظ ہوجاتا ہے، کوئی اس کو قتل نہیں کرسکتا، تیسرے یہ کہ ساری دنیا کے مسلمانوں پر اس بیت اللہ کا حج فرض ہے، بشرطیکہ وہاں تک پہنچنے کی استطاعت ہو، اور قدرت رکھتا ہو۔
پہلی بات کہ اس میں اللہ جل شانہ کی قدرت کی بڑی نشانیاں ہیں، اس کی توضیح یہ ہے کہ جب سے بیت اللہ قائم ہوا اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ کو مخالفین کے حملوں سے محفوظ فرمادیا، ابرہہ نے ہاتھیوں کا لشکر لے کر چڑھائی کی، تو اللہ جل شانہ نے اپنی قدرت کاملہ سے ان کو پرندوں کے ذریعہ تباہ و ہلاک کردیا، حرم مکہ میں داخل ہونے والاانسان بلکہ جانور تک محفوظ ہے، جانوروں میں بھی اس کا احساس ہے، حدود حرم کے اندر جانور بھی اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں وہاں وحشی شکاری جانور انسان سے نہیں بھاگتا، عام طور پر یہ بھی مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ بیت اللہ کی جس جانب بارش ہوتی ہے اس جانب کے ممالک زیادہ بارش سے سیراب ہوتے ہیں ایک عجیب نشانی یہ ہے کہ جمرات جن پر ایک حج کرنے والا سات سات کنکریاں روزانہ تین روز تک پھینکتا ہے، اور ہر سال لاکھوں حجاج وہاں جمع ہوتے ہیں، یہ ساری کنکریاں اگر وہاں جمع ہو کر باقی رہیں تو ایک ہی سال میں وہ جمرات کنکریوں کے ڈھیر میں دب جائیں، اور چند سال میں تو وہاں ایک پہاڑ بن جائے۔ حالانکہ مشاہدہ میں یہ ہے کہ حج کے تینوں دن گزرنے کے بعد وہاں کنکریوں کا کوئی بہت بڑا انبار جمع نہیں ہوتا، کچھ کنکریاں پھیلی ہوئی نظر آتی ہیں جس کی وجہ حدیث آنحضرت ﷺ نے یہ بیان فرمائی کہ یہ کنکریاں فرشتے اٹھا لیتے ہیں اور صرف ایسے لوگوں کی کنکریاں باقی رہ جاتی ہیں جن کا حج کسی وجہ سے قبول نہیں ہوا، اور یہی وجہ ہے کہ جمرات کے پاس سے کنکریاں اٹھا کر رمی کرنے کی ممانعت کی گئی ہے، کیونکہ وہ غیر مقبول ہیں، رسول کریم ﷺ کے اس ارشاد کی تصدیق ہر دیکھنے والا آنکھوں سے مشاہدہ کرتا ہے، کہ جمرات کے آس پاس بہت تھوڑی سی کنکریاں نظر آتی ہیں، حالانکہ وہاں سے اٹھا نے یا صاف کرنے کا نہ کوئی اہتمام حکومت کی طرف سے ہوتا ہے نہ عوام کی طرف سے۔ (حاشیہ 1)
(حاشیہ) اب معلوم ہوا ہے کہ حکومت نے اٹھوانے کا انتظام کیا ہے۔ (محمد تقی عثمانی) اس وجہ سے شیخ جلال الدین سیوطی ؒ نے خصائص کبری میں فرمایا کہ رسول کریم ﷺ کے بعض معجزات ایسے بھی ہیں جو آپ کی وفات کے بعد بھی موجود اور قائم ہیں، اور قیامت تک باقی رہیں گے، اور ہر شخص ان کا مشاہدہ کرسکے گا، ان میں سے ایک تو قرآن کا بےنظیر ہونا ہے کہ ساری دنیا اس کی مثال لانے سے عاجز ہے، یہ عجز جیسے عہد نبوی میں تھا ایسے ہی آج بھی موجود ہے، اور قیامت تک رہے گا، ہر زمانہ کا مسلمان پوری دنیا کو چیلنج کرسکتا ہے کہ (فاتوا بسورۃ من مثلہ) اسی طرح جمرات کے بارے میں جو آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کہ ان پر پھینکی ہوئی کنکریاں نامعلوم طور پر فرشتے اٹھا لیتے ہیں، صرف ان بدنصیب لوگوں کی کنکریاں رہ جاتی ہیں جن کے حج قبول نہیں ہوتے، آپ ﷺ کے اس ارشاد کی تصدیق ہر زمانہ ہر قرن میں ہوتی رہی ہے، اور قیامت تک ہوتی رہے گی، یہ رسول کریم ﷺ کا ہمیشہ باقی رہنے والا معجزہ اور بیت اللہ سے متعلق اللہ تعالیٰ کی ایک بڑی نشانی ہے۔
مقام ابراہیم
ان نشانیوں میں سے ایک بڑی نشانی مقام ابراہیم ہے، اسی لئے قرآن کریم نے اس کو مستقل طور پر علیحدہ بیان فرمایا، مقام ابراہیم وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم ؑ بیت اللہ کی تعمیر فرماتے تھے، اور بعض روایات میں ہے کہ پتھر تعمیر کی بلندی کے ساتھ ساتھ خودبخود بلند ہوجاتا تھا، اور نیچے اترنے کے وقت نیچا ہوجاتا تھا، اس پتھر کے اوپر حضرت ابراہیم ؑ کے قدم مبارک کا گہرا نشان آج تک موجود ہے، ظاہر ہے کہ ایک بےحس و بےشعور پتھر میں یہ ادراک کہ ضرورت کے موافق بلند یا پست ہوجائے اور یہ تاثر کہ موم کی طرح نرم ہو کر قدمین کا مکمل نقشہ اپنے اندر لے لے، یہ سب آیات قدرت ہیں جو بیت اللہ کی اعلی فضیلت ہی سے متعلق ہیں، یہ پتھر بیت اللہ کے نیچے دروازے کے قریب تھا، جب قرآن کا یہ حکم نازل ہوا کہ مقام ابراہیم پر نماز پڑھو (واتخذوا من مقام ابراہیم مصلی) اس وقت طواف کرنے والوں کی مصلحت سے اس کو اٹھا کر بیت اللہ کے سامنے ذرا فاصلے پر مطاف سے باہر بیر زمزم کے قریب رکھ دیا گیا، اور آج کل اس کو اسی جگہ ایک محفوظ مکان میں مقفل کیا ہوا ہے، طواف کے بعد کی دو رکعتیں اسی مکان کے پیچھے پڑھی جاتی ہیں، حال میں یہ ترمیم ہوئی کہ وہ مکان تو ہٹا دیا گیا اور مقام ابراہیم کو ایک بلوری خول کے اندر محفوظ کردیا گیا، مقام ابراہیم اصل میں اس خاص پتھر کا نام ہے، اور طواف کے بعد کی رکعتیں اس کے اوپر یا اس کے پاس پڑھنا افضل ہے، لیکن مقام ابراہیم کے لفظی معنی کے اعتبار سے یہ لفظ تمام مسجد حرام کو حاوی ہے، اسی لئے حضرات فقہاء نے فرمایا کہ مسجد حرام کے اندر جس جگہ بھی طواف کی رکعتیں پڑھ لے واجب ادا ہوجائے گا۔
داخل بیت اللہ کا مامون ہونا
آیت مذکورہ میں بیت اللہ کی دوسری خصوصیت یہ بتلائی گئی ہے کہ جو اس میں داخل ہوجائے وہ امن والا یعنی مامون و محفوظ ہوجاتا ہے، اس میں داخل ہونے والے کا مامون و محفوظ ہونا ایک تو تشریعی اعتبار سے ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کو یہ حکم ہے کہ جو شخص اس میں داخل ہوجائے اس کو نہ ستاؤ نہ قتل کرو، اگر کوئی شخص کسی کو قتل کر کے یا کوئی اور جرم کر کے وہاں چلا جائے اس کو بھی اس جگہ سزا نہ دی جائے، بلکہ اس کو اس پر مجبور کیا جائے کہ وہ حرم سے باہر نکلے، حرم سے باہر آنے پر سزا جاری کی جائے گی، اس طرح حرم میں داخل ہونے والا شرعی طور پر مامون و محفوظ ہوگیا۔ دوسرے حرم میں داخل ہونے کا مامون و محفوظ ہونا یوں بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تکوینی طور پر ہر قوم و ملت کے دلوں میں بیت اللہ کی تعظیم و تکریم ڈال دی ہے اور وہ سب عموما ہزاروں اختلافات کے باوجود اس عقیدے پر متفق ہیں کہ اس میں داخل ہونے والا اگرچہ مجرم یا ہمارا دشمن ہی ہو تو حرم کا احترام اس کا مقتضی ہے کہ وہاں اس کو کچھ نہ کہیں، حرم کو عام جھگڑوں لڑائیوں سے محفوظ رکھا جائے، زمانہ جاہلیت کے عرب اور ان کے مختلف قبائل خواہ کتنی ہی عملی خرابیوں میں مبتلا تھے، مگر بیت اللہ اور حرم محترم کی عظمت پر سب جان دیتے تھے، ان کی جنگ جوئی اور تند خوئی ساری دنیا میں مشہور ہے، لیکن حرم کے احترام کا یہ حال تھا کہ باپ کے قاتل بیٹے کے سامنے آتا تو مقتول کا بیٹا جو اس کے خون کا پیاسا ہوتا تھا اپنی آنکھیں نیچی کر کے گذر جاتا تھا اس کو کچھ نہ کہتا تھا۔ فتح مکہ میں صرف رسول اللہ ﷺ کے لئے دین کی اہم مصلحت اور بیت اللہ کی تطہیر کی خاطر صرف چند گھنٹوں کے لئے حرم میں قتال کی اجازت اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی تھی، اور فتح کے بعد آپ ﷺ نے بڑی تاکید کے ساتھ اس کا اعلان و اظہار فرمایا کہ یہ اجازت صرف رسول اللہ ﷺ کے لئے تطہیر بیت اللہ کی غرض سے تھی اور وہ بھی چند گھنٹوں کے لئے تھی، اس کے بعد ہمیشہ کے لئے پھر اس کی وہی حرمت ثابت ہے جو پہلے سے تھی، اور فرمایا کہ حرم کے اندر قتل و قتال نہ مجھ سے پہلے حلال تھا نہ میرے بعد کسی کے لئے حلال ہے، اور میرے لئے بھی صرف چند گھنٹوں کے لئے حلال ہوا تھا پھر حرام کردیا گیا۔
رہا یہ معاملہ کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد حجاج بن یوسف نے حضرت عبداللہ ابن زبیر ؓ کے خلاف مکہ میں فوج کشی کی اور قتل و غارت کیا، یہ اس امن عام کے تشریعی طور پر اس لئے خلاف نہیں کہ باجماع امت اس کا یہ فعل حرام اور سخت گناہ تھا، تمام امت نے اس پر نفرین کی اور تکوینی طور پر بھی اس کو احترام بیت اللہ کے منافی اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ حجاج خود بھی اپنے اس عمل کے حلال ہونے کا معتقد نہ تھا، وہ بھی جانتا تھا کہ میں ایک سنگین جرم کر رہا ہوں، لیکن سیاست و حکومت کی مصالح نے اس کو اندھا کیا ہوا تھا۔ بہرحال یہ بات پھر بھی محفوظ تھی کہ عامہ خلائق بیت اللہ اور حرم کو اس درجہ واجب الاحترام سمجھتے رہے ہیں کہ اس میں قتل و قتال اور لڑائی جھگڑے کو بدترین گناہ سمجھتے ہیں، اور یہ ساری دنیا میں صرف بیت اللہ اور حرم محترم ہی کی خصوصیت ہے۔
حج بیت اللہ کا فرض ہونا
آیت میں بیت اللہ کی تیسری خصوصیت یہ بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق پر بیت اللہ کا حج کرنا لازم واجب قرار دیا ہے، بشرطیکہ وہ بیت اللہ تک پہنچنے کی قدرت و استطاعت رکھتے ہوں، اس مقدرت و استطاعت کی تفصیل یہ ہے کہ اس کے پاس ضروریات اصلیہ سے فاضل اتنا مال ہو جس سے وہ بیت اللہ تک آنے جانے اور وہاں کے قیام کا خرچ برداشت کرسکے، اور اپنی واپسی تک ان اہل و عیال کا بھی انتظام کرسکے جن کا نفقہ ان کے ذمہ واجب ہے، نیز ہاتھ پاؤں اور آنکھوں سے معذور نہ ہو، کیونکہ ایسے معذور کو تو اپنے وطن میں چلنا پھرنا بھی مشکل ہے، وہاں جانے اور ارکان حج ادا کرنے پر کیسے قدرت ہوگی۔
اسی طرح عورت کے لئے چونکہ بغیر محرم کے سفر کرنا شرعا جائز نہیں، اس لئے وہ حج پر قادر اس وقت سمجھی جائے گی جبکہ اس کے ساتھ کوئی محرم حج کرنے والا ہو، خواہ محرم اپنے خرچ سے حج کر رہا ہو، یا یہ عورت اس کا خرچ بھی برداشت کرے، اسی طرح وہاں تک پہنچنے کے لئے راستہ کا مامون ہونا بھی استطاعت کا ایک جزء ہے، اگر راستہ میں بدامنی ہو، جان و مال کا قوی خطرہ ہو حج کی استطاعت نہیں سمجھی جائے گی۔ لفظ حج کے لغوی معنی قصد کرنے کے ہیں، اور شری معنی کی ضروری تفصیل تو خود قرآن کریم نے بیان فرمائی کہ طواف کعبہ اور وقوف عرفہ و مزدلفہ وغیرہ ہیں، اور باقی تفصیلات رسول کریم ﷺ نے اپنے زبانی ارشادات اور عملی بیانات کے ذریعہ واضح فرمادی ہیں، اس آیت میں حج بیت اللہ کے فرض ہونے کا اعلان فرمانے کے بعد آخر میں فرمایا (ومن کفر فان اللہ غنی عن العلمین) یعنی جو شخص منکر ہو تو اللہ تعالیٰ بےنیاز ہے تمام جہان والوں سے۔
اس میں وہ شخص تو داخل ہے ہی جو صراحۃ فریضہ حج کا منکر ہو، حج کو فرض نہ سمجھے، اس کا دائرہ اسلام سے خارج اور کافر ہونا تو ظاہر ہے، اس لئے ومن کفر کا لفظ اس پر صراحۃ صادق ہے، اور جو شخص عقیدہ کے طور پر فرض سمجھتا ہے، لیکن باوجود استطاعت وقدرت کے حج نہیں کرتا، وہ بھی ایک حیثیت سے منکر ہی ہے، اس پر لفظ ومن کفر کا اطلاق تہدید اور تاکید کے لئے ہے، کہ یہ شخص کافروں جیسے عمل میں مبتلا ہے، جیسے کافر و منکر حج نہیں کرتے یہ بھی ایسا ہی ہے، اسی لئے فقہاء رحمہم اللہ نے فرمایا کہ آیت کے اس جملہ میں ان لوگوں کے لئے سخت وعید ہے جو باوجود قدرت و استطاعت کے حج نہیں کرتے کہ وہ اپنے اس عمل سے کافروں کی طرح ہوگئے۔ (العیاذ باللہ)
Top