Maarif-ul-Quran - Al-Ahzaab : 39
اِ۟لَّذِیْنَ یُبَلِّغُوْنَ رِسٰلٰتِ اللّٰهِ وَ یَخْشَوْنَهٗ وَ لَا یَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلَّا اللّٰهَ١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ حَسِیْبًا
الَّذِيْنَ : وہ جو يُبَلِّغُوْنَ : پہنچاتے ہیں رِسٰلٰتِ اللّٰهِ : اللہ کے پیغامات وَيَخْشَوْنَهٗ : اور اس سے ڈرتے ہیں وَلَا يَخْشَوْنَ : اور وہ نہیں ڈرتے اَحَدًا : کسی سے اِلَّا اللّٰهَ : اللہ کے سوا وَكَفٰى : اور کافی ہے بِاللّٰهِ : اللہ حَسِيْبًا : حساب لینے والا
وہ لوگ جو پہنچاتے ہیں پیغام اللہ کے اور ڈرتے ہیں اس سے اور نہیں ڈرتے کسی سے سوائے اللہ کے اور بس ہے اللہ کفایت کرنے والا۔
آگے ان انبیاء (علیہم السلام) کی خاص صفات کا ذکر ہے، جن کے لئے پچھلے زمانے میں متعدد بیویاں رکھنے کی اجازت اوپر معلوم ہوئی ہے، فرمایا (آیت) الذین یبلغون رسلت اللہ، یعنی یہ حضرات انبیاء (علیہم السلام) سب ہی اللہ تعالیٰ کے پیغامات اپنی اپنی امتوں کو پہنچاتے تھے۔
ایک حکمت
شاید اس میں انبیاء (علیہم السلام) کی کثرت ازواج کی حکمت کی طرف بھی اشارہ ہو کہ ان کے تمام اعمال و اقوال امت کو پہنچنا ضروری ہیں، اور مردوں کا ایک بڑا حصہ وقت کا اپنے زنانے مکان میں عورتوں اور بچوں کے ساتھ گزرتا ہے، اس وقت میں جو کوئی وحی نازل ہو یا خود پیغمبر کوئی حکم صادر فرما دیں یا کوئی عمل کریں، یہ سب امت کی امانت ہے جس کو ازواج ہی کے ذریعہ سے باآسانی امت تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ دوسری صورتیں مشکلات سے خالی نہیں، اس لئے انبیاء کے لئے اگر بیبیاں زیادہ ہوں تو ان کی خانگی زندگی کے افعال و اقوال اور ان کی خانگی سیرت عام امت تک پہنچنا سہل ہوجائے گا۔ واللہ اعلم
دوسری صفت انبیاء (علیہم السلام) کی یہ بیان کی گئی کہ (آیت) ویخشونہ ولایخشون احداً الا اللہ، یعنی یہ حضرات اللہ سے ڈرتے رہتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ اس میں یہ بھی داخل ہے کہ بمصالح دینیہ اگر ان کو کسی کام کی عملی تبلیغ کا مامور کیا جاتا ہے وہ اس میں کبھی کوتاہی نہیں کرتے، اگر کچھ لوگ اس پر طعنہ کریں تو اس سے نہیں ڈرتے۔
ایک اشکال اور جواب
یہاں جبکہ تمام زمرہ انبیاء کا یہ حال بیان فرمایا ہے کہ وہ اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تو اس سے پہلی آیت میں رسول اللہ ﷺ کے متعلق یہ ارشاد ہے کہ تخشی الناس (یعنی آپ لوگوں سے ڈرتے ہیں) یہ کس طرح درست ہوگا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آیت مذکورہ میں انبیاء کا غیر اللہ سے نہ ڈرنا تبلیغ رسالات کے معاملے میں بیان ہوا ہے، اور رسول اللہ ﷺ کو خوف طعنہ زنی کا ایک ایسے کام میں پیش آیا جو بظاہر ایک دنیوی کام تھا، تبلیغ و رسالت سے اس کا تعلق نہ تھا۔ پھر جب آیات مذکورہ سے آپ پر یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ نکاح بھی عملی تبلیغ و رسالت کا ایک جز ہے تو اس کے بعد آپ کو بھی کسی کا خوف طعن وتشنیع مانع عمل نہیں ہوا، اور یہ نکاح عمل میں لایا گیا، اگرچہ بہت سے کفار نے اعتراضات کئے اور آج تک کرتے رہتے ہیں۔
Top