Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Ahzaab : 40
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠ ۧ
مَا كَانَ
: نہیں ہیں
مُحَمَّدٌ
: محمد
اَبَآ
: باپ
اَحَدٍ
: کسی کے
مِّنْ رِّجَالِكُمْ
: تمہارے مردوں میں سے
وَلٰكِنْ
: اور لیکن
رَّسُوْلَ اللّٰهِ
: اللہ کے رسول
وَخَاتَمَ
: اور مہر
النَّبِيّٖنَ ۭ
: نبیوں
وَكَانَ
: اور ہے
اللّٰهُ
: اللہ
بِكُلِّ شَيْءٍ
: ہر شے کا
عَلِيْمًا
: جاننے والا
محمد باپ نہیں کسی کا تمہارے مردوں میں سے لیکن رسول ہے اللہ کا اور مہر سب نبیوں پر اور ہے اللہ سب چیزوں کا جاننے والا۔
خلاصہ تفسیر
(پہلی آیات میں نکاح زینب کا تبلیغ عملی ہونے اور سنت انبیاء ہونے کی حیثیت سے محمود ہونا بتلایا گیا تھا، آگے ان معترضین کا جواب ہے جو اس نکاح کو مذموم سمجھ کر طعنہ زنی کرتے تھے، یعنی) محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں (یعنی جو لوگ رسول اللہ ﷺ سے علاقہ اولاد نہیں رکھتے، جیسا کہ اس آیت میں عام صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا رجالکم یعنی تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں۔ اس میں نسبت عام لوگوں کی طرف دی گئی، اور آنحضرت ﷺ سے نسبت قطع کی گئی۔ اس لئے اپنے خاندان کے افراد میں سے کسی مرد کا باپ ہونا اس کے منافی نہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ عام امت کے لوگوں کے ساتھ آپ کو ایسی ابوت حاصل نہیں جو کسی دلیل صحیح سے ان کی مطلقہ بیوی کے ساتھ نکاح حرام ہونے کا موجب ہو) لیکن (ہاں ایک دوسری قسم کی ابوت روحانی ضرور حاصل ہے، چنانچہ) اللہ کے رسول ہیں (اور ہر رسول روحانی مربی ہونے کی وجہ سے امت کا روحانی باپ ہوتا ہے) اور (اس ابوت روحانیہ میں اس درجہ کامل ہیں کہ سب رسولوں سے افضل واکمل ہیں، چناچہ آپ) سب نبیوں کے ختم پر ہیں (اور جونہی ایسا ہوگا وہ ابوت روحانیہ میں سب سے بڑھ کر ہوگا، کیونکہ آپ کی ابوت روحانیہ کا سلسلہ قیامت تک چلے گا، جس کے نتیجہ میں آپ کی روحانی اولاد سب سے زیادہ ہوگی۔ مطلب یہ ہے کہ امت کے لئے آپ کی ابوت جسمانی اور نسبی نہیں ہے جس سے حرمت نکاح متعلق ہوتی ہے بلکہ ابوت روحانی ہے۔ اس لئے متبنیٰ بیٹے کی مطلقہ سے نکاح کوئی قابل اعتراض نہیں، بلکہ اس روحانی ابوت کا تقاضا یہ ہے کہ سب لوگ آپ پر مکمل اعتماد و اعتقاد رکھیں، آپ کے کسی قول و فعل پر شک و شبہ نہ کریں) اور (اگر یہ وسوسہ ہو کہ یہ نکاح ناجائز تو نہیں تھا، لیکن اگر نہ ہوتا تو بہتر ہوتا تاکہ لوگوں کو اعتراض اور طعن کا موقع ہی نہ ملتا تو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ) اللہ تعالیٰ ہر چیز (کے وجود یا عدم کی مصلحت) کو خوب جانتا ہے۔
معارف و مسائل
آیت مذکورہ میں لوگوں کے خیال کا رد ہے جو اپنی رسم جاہلیت کے مطابق زید بن حارثہ کو رسول اللہ ﷺ کا بیٹا کہتے تھے، اور ان کی طلاق کے بعد حضرت زنیب سے آنحضرت ﷺ کے نکاح پر طعن کرتے تھے، کہ بیٹے کی بیوی سے نکاح کرلیا۔ اس کے رد کے لئے یہ کہہ دینا کافی تھا کہ رسول اللہ ﷺ زید کے باپ نہیں بلکہ زید کے باپ حارثہ ہیں، مگر اس میں مبالغہ اور تاکید کیلئے ارشاد فرمایا (آیت) ماکان محمد ابا احدمن رجالکم، یعنی محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ بھی نہیں، تو ایسے شخص پر جس کی اولاد میں کوئی بھی مرد نہ ہو یہ طعن دینا کیسے صحیح ہوسکتا ہے، کہ اس کا کوئی بیٹا ہے اور اس کی مطلقہ بیوی آپ کے بیٹے کی بیوی ہونے کی وجہ سے آپ پر حرام ہے۔
اس مضمون کے بیان کے لئے مختصر الفاظ یہ تھے کہ (ابا احد منکم) کہا جاتا، اس کے بجائے قرآن حکیم نے لفظ رجال کا اضافہ کر کے اس شبہ کو دور کردیا کہ رسول اللہ ﷺ تو چار فرزندوں کے والد ہیں، تین فرزند حضرت خدیجہ سے قاسم، طیب، طاہر ہیں اور ایک حضرت ماریہ قبطیہ سے ابراہیم، کیونکہ یہ سب بچپن ہی میں وفات پا گئے ہیں ان میں سے کوئی بھی رجال کی حد میں داخل نہیں ہوا، اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ نزول آیت کے وقت آپ کا کوئی فرزند نہ تھا۔ قاسم، طیب، اور طاہر کی وفات ہوگئی تھی اور ابراہیم ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے۔
مخالفین کے اعتراض اور طعن کا جواب اسی جملہ سے ہوگیا تھا، مگر آگے دوسرے شبہات کے ازالہ کے لئے فرمایا ولکن رسول اللہ حرف لکن عربی زبان میں اس کام کے لئے آتا ہے کہ پچھلے کلام میں جو کوئی شبہ ہوسکتا تھا اس کو دور کیا جائے۔ یہاں جب رسول اللہ ﷺ کے متعلق یہ بیان کیا گیا کہ آپ امت کے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں تو اس پر شبہ ہوسکتا تھا کہ ہر نبی و رسول اپنی امت کا باپ ہوتا ہے، اس لحاظ سے رسول اللہ ﷺ امت کے سبھی مردوں کے بلکہ ہر مرد و عورت کے باپ ہیں آپ سے ابوت کی نفی گویا نبوت کی نفی ہے۔
اس کا جواب لکن رسول اللہ کے لفظ سے یہ دیا گیا کہ حقیقی اور نسبی باپ ہونا اور چیز ہے جس پر نکاح کے حلال و حرام کے احکام عائد ہوتے ہیں اور بحیثیت نبوت امت کا روحانی باپ ہونا دوسری چیز ہے جس سے یہ احکام متعلق نہیں ہوتے، تو گویا مطلب اس پورے جملے کا یہ ہوگیا کہ آپ امت کے مردوں میں سے کسی کے بھی نسبی باپ نہیں، لیکن روحانی باپ سب کے ہیں۔
اس میں ایک دوسرے طعن کا جواب بھی ہوگیا، جو بعض مشرکین نے کیا تھا کہ رسول اللہ ﷺ معاذ اللہ ابتر (یعنی مقطوع النسل) ہیں۔ یعنی کوئی نرینہ اولاد آپ کی نہیں ہے، جس سے نسب چلے، اور آپ کا یہ پیغام آگے بڑھے، چند روز کے بعد ان کا قصہ ہی ختم ہوجائے گا۔ الفاظ مذکور نے یہ واضح کردیا کہ اگرچہ نسبی اولاد نرینہ آپ کی نہیں لیکن آپ کی رسالت ونبوت کے پیغام کو پھیلانے اور قائم رکھنے اور بڑھانے کے لئے نسبی اولاد کی ضرورت نہیں، اس کے لئے روحانی اولاد کام کیا کرتی ہے۔ اور چونکہ آپ رسول اللہ ہیں، اور رسول امت کا روحانی باپ ہوتا ہے، اس لئے آپ پوری امت کے روحانی باپ ہونے کی حیثیت سے تم سب سے زیادہ کثیر الاولاد ہیں۔
یہاں جبکہ آنحضرت ﷺ کی رسالت و نبوت کا ذکر آیا، اور اس منصب نبوت میں آپ تمام دوسرے انبیاء سے خاص امتیازی فضیلت رکھتے ہیں تو آگے آپ کی مخصوص شان اور تمام انبیاء (علیہم السلام) پر آپ کا فائق ہونا اس لفظ سے واضح ہوگیا وخاتم النبین، لفظ خاتم میں دو قراتیں ہیں، امام حسن اور عاصم کی قرات خاتم بفتح تاء ہے اور دوسرے آئمہ قرات خاتم بکسر تاء پڑھتے ہیں۔ حاصل معنی دونوں کا ایک ہی ہے، یعنی انبیاء کو ختم کرنے والے، کیونکہ خاتم خواہ بکسر التاء ہو یا بفتح التاء دونوں کے معنی آخر کے بھی آتے ہیں، اور مہر کے معنی میں بھی یہ دونوں لفظ استعمال ہوتے ہیں، اور نتیجہ دوسرے معنی کا بھی وہی آخر کے معنی ہوتے ہیں کیونکہ مہر کسی چیز پر بند کرنے کے لئے آخر ہی میں کی جاتی ہے۔ لفظ خاتم بالکسر والفتح دونوں کے معنی لغت عربی میں تمام کتابوں میں مذکور ہیں۔ قاموس، صحاح، لسان العرب، تاج العروس وغیرہ اسی لئے تفسیر روح المعانی میں خاتم بمعنی مہر کا حاصل بھی وہی معنی آخر کے بتلائے ہیں۔ اس کے الفاظ یہ ہیں والخاتم اسم الہ لما یختم بہ کالطابع لما یطبع بہ فمعنی خاتم النبین الذی ختم النبیون بہ ومالہ اخر النبین۔ یہی مضمون تفسیر بیضاوی اور احمدی میں بھی مذکور ہے اور امام راغب نے مفرادات القرآن میں فرمایا وخاتم النبوة الایۃ ختم النبوة ای تممہا بمجیہ، یعنی آپ کو خاتم نبوت اس لئے کہا گیا کہ آپ نے نبوت کو اپنے تشریف لانے سے ختم اور مکمل کردیا ہے۔
اور محکم ابن سیدہ میں ہے وخاتم کل شئی وخاتمتہ عاقبتہ واخرہ یعنی ہر چیز کا خاتم اور خاتمہ اس کے انجام اور آخر کو کہا جاتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ قراءت خواہ بفتح تاء کی لی جائے یا بکسر تاء کی، معنی دونوں صورتوں میں یہ ہیں کہ آپ ختم کرنے والے ہیں انبیاء کے، یعنی سب کے آخر اور بعد میں آپ مبعوث ہوئے ہیں۔
صفت خاتم الانبیاء ایک ایسی صفت ہے جو تمام کمالات نبوت و رسالت میں آپ کی اعلیٰ فضیلت اور خصوصیت کو ظاہر کرتی ہے۔ کیونکہ عموماً ہر چیز میں تدریجی ترقی ہوتی ہے اور انتہا پر پہنچ کر اس کی تکمیل ہوتی ہے۔ اور جو آخری نتیجہ ہوتا ہے وہی اصل مقصود ہوتا ہے، قرآن کریم نے خود اس کو واضح کردیا ہے (آیت) الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی، یعنی آج میں نے تمہارا دین مکمل کردیا ہے، اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی ہے۔
انبیائے سابقین کے دین بھی اپنے اپنے وقت کے لحاظ سے مکمل تھے، کوئی ناقص نہ تھا، لیکن کمال مطلق اسی دین مصطفوی کو حاصل ہوا جو اولین و آخرین کے لئے حجت اور قیامت تک چلنے والا دین ہے۔
اس جگہ صفت خاتم النبین کے اضافہ سے اس مضمون کی بھی اور زیادہ وضاحت اور تکمیل ہوگئی کہ رسول اللہ ﷺ کو مقطوع النسل کہنا جہالت ہے، جبکہ ساری امت کے باپ ہونے کی حیثیت سے آپ مصنف ہیں کیوں کہ لفظ خاتم النبین نے یہ بھی بتلا دیا کہ آپ کے بعد قیامت تک آنے والی سب نسلیں اور قومیں آپ ہی کی امت میں شامل ہوں گی۔ اس وجہ سے آپ کی امت کی تعداد بھی دوسری امتوں سے زیادہ ہوگی اور آپ کی روحانی اولاد دوسرے انبیاء کی نسبت سے بھی زیادہ ہوگی۔
صفت خاتم النبین نے یہ بھی بتلا دیا کہ آنحضرت ﷺ کی شفقت اپنی اولاد روحانی یعنی پوری امت پر دوسرے تمام انبیاء سے زائد ہوگی، اور آپ قیامت تک پیش آنے والی ضرورتوں کو واضح کرنے کا پورا اہتمام فرمائیں گے۔ کیونکہ آپ کے بعد کوئی نبی اور کوئی وحی دنیا میں آنے والی نہیں، بخلاف انبیاء سابقین کے کہ ان کو اس کی فکر نہ تھی وہ جانتے تھے کہ جب قوم میں گمراہی پھیلے گی تو ہمارے بعد دوسرے انبیاء آ کر اس کی اصلاح کردیں گے، مگر خاتم الانبیاء ﷺ کو یہ فکر لاحق تھی کہ قیامت تک امت کو جن حالات سے سابقہ پڑے گا ان سب حالات کے متعلق ہدایات امت کو دے کر جائیں، جس پر رسول اللہ ﷺ کی احادیث شاہد ہیں کہ آپ کے بعد جتنے لوگ قابل اقتداء آنے والے تھے اکثر ان کے نام لے کر بتلا دیا ہے۔ اسی طرح جتنے گمراہی کے علمبردار ہیں ان کے حالات اور پتے ایسے کھول کر بتلا دیئے ہیں کہ ذرا غور کرنے والے کو کوئی اشتباہ باقی نہ رہ جائے۔ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے انی ترکتکم علی شریعة بیضاء لیلہا ونہارھا سواء، ”یعنی میں نے تم کو ایسے روشن راستے پر چھوڑا ہے جس میں رات دن برابر ہیں کسی وقت بھی گمراہی کا خطرہ نہیں“
اس آیت میں یہ بات بھی قابل نظر ہے کہ اوپر آنحضرت ﷺ کا ذکر بصفت رسول آیا ہے، اس کے لئے بظاہر مناسب یہ تھا کہ آگے ”خاتم الرسل“ یا ”خاتم المرسلین“ کا لفظ استعمال ہوتا، مگر قرآن حکیم نے اس کے بجائے ”خاتم النبین“ کا لفظ اختیار فرمایا۔
وجہ یہ ہے کہ جمہور علماء کے نزدیک نبی اور رسول میں ایک فرق ہے۔ وہ یہ کہ نبی تو ہر شخص کو کہا جاتا ہے جس کو حق تعالیٰ اصلاح خلق کے لئے مخاطب فرمائیں، اور اپنی وحی سے مشرف فرمائیں، خواہ اس کے لئے کوئی مستقل کتاب اور مستقل شریعت تجویز کریں، یا پہلے ہی کسی نبی کی کتاب و شریعت کے تابع لوگوں کو ہدایت کرنے پر مامور ہو، جیسے ہارون ؑ حضرت موسیٰ ؑ کی کتاب و شریعت کے تابع ہدایت کرنے پر مامور تھے۔
اور لفظ رسول خاص اس نبی کے لئے بولا جاتا ہے جس کو مستقل کتاب و شریعت دی گئی ہو۔ اسی طرح لفظ نبی کے مفہوم میں بہ نسبت لفظ رسول کے عموم زیادہ ہے، تو آیت کا مفہوم یہ ہوا کہ آپ انبیاء کے ختم کرنے والے اور سب سے آخر میں ہیں خواہ وہ صاحب شریعت نبی ہوں یا صرف پہلے نبی کے تابع۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبی کی جتنی قسمیں اللہ کے نزدیک ہو سکتی ہیں وہ سب آپ پر ختم ہوگئیں۔ آپ کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔
”یعنی یہ آیت نص صریح ہے اس عقیدہ کے لئے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں، اور جب نبی نہیں تو بدرجہ اولیٰ رسول بھی نہیں، کیونکہ لفظ نبی عام اور لفظ رسول خاص ہے اور یہ وہ عقیدہ ہے جس پر احادیث متواترہ شاہد ہیں، جو صحابہ کرام کی ایک بڑی جماعت کی روایت سے ہم تک پہنچی ہیں“
اس آیت کی لفظی تشریح میں کسی قدر تفصیل سے اس لئے کام لیا گیا کہ ہمارے ملک میں مرزا قادیانی مدعی نبوت نے اس آیت کو اپنے راستہ کی رکاوٹ سمجھ کر اس کی تفسیر میں طرح طرح کی تحریفات اور احتمالات پیدا کئے ہیں، مذکور الصدر تقریر سے الحمد للہ ان سب کا جواب ہوجاتا ہے۔
مسئلہ ختم نبوت
رسول اللہ ﷺ کا خاتم النبین ہونا اور آپ کا آخری پیغمبر ہونا، آپ کے بعد کسی نبی کا دنیا میں مبعوث نہ ہونا اور ہر مدعی نبوت کا کاذب و کافر ہونا ایسا مسئلہ ہے جس پر صحابہ کرام سے لے کر آج تک ہر دور کے مسلمانوں کا اجماع و اتفاق رہا ہے۔ اس لئے ضرورت نہ تھی کہ اس پر کوئی تفصیلی بحث کی جائے، لیکن قادیانی فرقہ نے اس مسئلہ میں مسلمانوں کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لئے بڑا زور لگایا ہے، سینکڑوں چھوٹی بڑی کتابیں شائع کر کے کم علم لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لئے احقر نے اس مسئلہ کی پوری تفصیل ایک مستقل کتاب ”ختم نبوت“ میں لکھ دی ہے، جس میں ایک سو آیات اور دو سو سے زائد احادیث اور سینکڑوں اقوال وآثار سلف وخلف سے اس مسئلہ کو پورا واضح کردیا ہے اور قادیانی دجل کے شبہ کا مفصل جواب دیا ہے، یہاں اس میں سے چند ضروری باتیں لکھی جاتی ہیں۔
آپ کا خاتم النبیین ہونا آخر زمانہ میں عیسیٰ ؑ کے نزول کے منافی نہیں
چونکہ قرآن کریم کی متعدد آیات اور احادیث متواترہ سے یہ ثابت ہے کہ قیامت سے پہلے آخر زمانہ میں حضرت عیسیٰ ؑ پھر دنیا میں تشریف لائیں گے، اور دجال اعظم کو قتل کریں گے اور اس وقت ہر گمراہی کو ختم کریں گے، جس کی تفصیل احقر کے رسالہ ”التصریح بما تواتر فی نزول المسیح“ میں مذکور ہے۔
مرزائی قادیانی نے عیسیٰ ؑ کا زندہ آسمان میں اٹھایا جانا اور پھر آخر زمانے میں تشریف لانا جو قرآن و سنت کی بیشمار نصوص سے ثابت ہیں ان کا انکار کر کے خود مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا، اور استدلال میں یہ پیش کیا کہ اگر حضرت عیسیٰ بن مریم نبی بنی اسرائیل کا پھر دنیا میں آنا تسلیم کیا جائے تو یہ آنحضرت محمد ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کے منافی ہوگا۔
جواب بالکل واضح ہے کہ خاتم النبیین اور آخر النبیین کے معنی یہ ہیں کہ آپ کے بعد کوئی شخص عہدہ نبوت پر فائز نہ ہوگا، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ سے پہلے جس کو نبوت عطا ہوچکی ہے ان کی نبوت سلب ہوجائے گی، یا ان میں سے کوئی اس عالم میں پھر نہیں آسکتا۔ البتہ آنحضرت ﷺ کے بعد جو بھی آپ کی امت میں اصلاح و تبلیغ کے لئے آئے گا وہ اپنے منصب نبوت پر قائم ہوتے ہوئے اس امت میں اصلاح کی خدمت آنحضرت ﷺ کی تعلیمات ہی کے تابع انجام دے گا، جیسا کہ احادیث صحیفہ میں تصریح ہے۔
امام ابن کثیر نے اسی آیت کی تفسیر میں فرمایا۔
”یعنی رسول اللہ ﷺ کے خاتم الانبیاء ہونے سے یہ مراد ہے کہ وصف نبوت آپ کے بعد منقطع ہوگیا، اب کسی کو یہ وصف اور منصب نہیں ملے گا، اس سے اس مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا جس پر امت کا اجماع ہے اور قرآن اس پر ناطق ہے اور احادیث رسول جو تقریباً درجہ تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں اس پر شاہد ہیں وہ یہ کہ حضرت عیسیٰ ؑ آخر زمانے میں نازل ہوں گے، کیونکہ ان کو نبوت اس دنیا میں ہمارے نبی ﷺ سے پہلے مل چکی تھی“
نبوت کے مفہوم کی تحریف ظلی اور بروزی نبوت کی ایجاد
اس مدعی نبوت نے دعویٰ نبوت کا راستہ ہموار کرنے کے لئے ایک نئی چال یہ چلی کہ نبوت کی ایک نئی قسم ایجاد کی، جس کا قرآن وسنت میں کوئی وجود و ثبوت نہیں اور پھر کہا کہ یہ قسم نبوت کی حکم قرآنی ختم نبوت کے منافی نہیں۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ اس نے نبوت کے مفہوم میں وہ راستہ اختیار کیا جو ہندوؤں اور دوسری قوموں میں معروف ہے کہ ایک شخص کسی دوسرے کے جنم میں دوسرے کے روپ میں آسکتا ہے، اور پھر یہ کہا کہ جو شخص رسول اللہ ﷺ کے مکمل اتباع کی وجہ سے آپ کا ہم رنگ ہوگیا ہو اس کا آنا گویا خود آپ کا ہی آنا ہے، وہ درحقیقت آپ ہی کا ظل اور بروز ہوتا ہے، اس لئے اس کے دعوے سے عقیدہ ختم نبوت متاثر نہیں ہوتا۔
مگر اول تو خود یہ نو ایجاد نبوت اسلام میں کہاں سے آئی، اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ اس کے علاوہ مسئلہ ختم نبوت چونکہ عقائد اسلامیہ کا ایک بنیادی عقیدہ ہے، اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اس کو مختلف عنوانات سے مختلف اوقات میں ایسا واضح کردیا ہے کہ کسی تحریف کرنے والے کی تحریف چل نہیں سکتی۔ اس جواب کی پوری تفصیل تو احقر کی کتاب ختم نبوت ہی میں دیکھی جاسکتی ہے، یہاں چند چیزیں بقدر ضرورت پیش کرنے پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔
صحیح بخاری و مسلم وغیرہ میں تمام کتب حدیث میں حضرت ابوہریرہ کی یہ روایت اسناد صحیح کے ساتھ آئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
”میری مثال اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال اس شخص جیسی ہے جس نے ایک مکان بنایا ہو اور اس کو خوب مضبوط اور مزین کیا ہو مگر اس کے ایک گوشہ میں دیوار کی ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی ہو تو لوگ اس کو دیکھنے کے لئے اس میں چلیں پھریں اور تعمیر کو پسند کریں مگر سب یہ کہیں کہ اس مکان بنانے والے نے یہ اینٹ بھی کیوں نہ رکھ دی جس سے تعمیر بالکل مکمل ہوجاتی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ”(قصر نبوت کی) وہ آخری اینٹ میں ہوں، اور بعض الفاظ حدیث میں ہیں کہ میں نے اس خالی جگہ کو پر کر کے قصر نبوت کو مکمل کردیا“
اس تمثیل بلیغ کا حاصل یہ ہے کہ نبوت ایک عالی شان محل کی طرح ہے، جس کے ارکان انبیاء (علیہم السلام) ہیں۔ آنحضرت محمد ﷺ سے پہلے یہ محل بالکل تیار ہوچکا تھا اور اس میں صرف ایک اینٹ کے سوا کسی اور قسم کی گنجائش تعمیر میں باقی نہیں تھی، آنحضرت ﷺ نے اس جگہ کو پر کر کے قصر نبوت کی تکمیل فرما دی، اب اس میں نہ کسی نبوت کی گنجائش ہے نہ رسالت کی، اگر نبوت یا رسالت کی کچھ اقسام مان لی جائیں تو اب ان میں سے کسی قسم کی گنجائش قصر نبوت میں نہیں ہے۔
صحیح بخاری و مسلم اور مسند احمد وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ کی ایک دوسری حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
”بنی اسرائیل کی سیاست اور انتقام خود انبیاء کے ہاتھ میں تھا، جب ایک نبی کی وفات ہوجاتی تو دوسرا نبی اس کے قائم مقام ہوجاتا تھا اور میرے بعد کوئی نبی نہیں، البتہ میرے خلیفہ ہوں گے جو بہت ہوں گے“
اس حدیث نے یہ بھی واضح کردیا کہ آنحضرت ﷺ چونکہ خاتم النبیین ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا تو امت کی ہدایت کا انتظام کیسے ہوگا ؟ اس کے متعلق فرمایا کہ آپ کے بعد امت کی تعلیم و ہدایت کا انتظام آپ کے خلفاء کے ذریعہ سے ہوگا، جو رسول اللہ ﷺ کے خلیفہ ہونے کی حیثیت سے مقاصد نبوت کو پورا کریں گے، اگر ظلی بروزی کوئی نبوت کی قسم ہوتی یا غیر تشریعی نبوت باقی ہوتی، تو ضرور تھا کہ یہاں اس کا ذکر کیا جاتا کہ اگرچہ عام نبوت ختم ہوچکی مگر فلاں قسم کی نبوت باقی ہے جس سے اس عالم کا انتظام ہوگا
اس حدیث میں صاف واضح الفاظ میں بتلا دیا کہ نبوت کی کوئی قسم آپ کے بعد باقی نہیں، اور ہدایت خلق کا کام جو پچھلی امتوں میں انبیاء بنی اسرائیل سے لیا گیا تھا، وہ اس امت میں آپ کے خلفاء سے لیا جائے گا۔
صحیح بخاری ومسلم میں حضرت ابوہریرہ کی حدیث مرفوع ہے
”یعنی نبوت میں سے کچھ باقی نہیں رہا بجز مبشرات کے“
مسند احمد وغیرہ میں حضرت صدیقہ عائشہ اور ام کرز کعبیہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
”میرے بعد نبوت میں سے کچھ باقی نہیں رہا بجز مبشرات کے، صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ مبشرات کیا چیز ہیں ؟ فرمایا سچے خواب جو مسلمان خود دیکھے یا اس کے متعلق کوئی دوسرا دیکھے“
اس حدیث نے کس قدر وضاحت سے بتلا دیا کہ نبوت کی کوئی قسم تشریعی یا غیر تشریعی اور بقول مرزا قادیانی ظلی یا بروزی آنحضرت ﷺ کے بعد باقی نہیں، صرف مبشرات یعنی سچے خواب لوگوں کو آئیں گے جن سے کچھ معلومات ہوجائیں گی۔
اور مسند احمد اور ترمذی میں حضرت انس بن مالک کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
”بیشک رسالت اور نبوت میرے بعد منقطع ہوچکی ہے، میرے بعد نہ کوئی رسول ہوگا اور نہ نبی“ وقال ھذا الحدیث صحیح
اس حدیث نے واضح کردیا کہ غیر تشریعی نبوت بھی آپ کے بعد باقی نہیں، اور ظلی بروزی تو نبوت کی کوئی قسم ہی نہیں نہ اسلام میں اس طرح کی کوئی چیز معروف ہے۔
اس جگہ مسئلہ ختم نبوت کی احادیث جمع کرنا مقصود نہیں، وہ تو دو سو سے زیادہ رسالہ ”ختم نبوت“ میں جمع کردی گئی ہیں، صرف چند احادیث سے یہ بتلانا مقصود تھا کہ مرزائی قادیانی نے جو بقاء نبوت کے لئے ظلی اور بروزی کا عنوان ایجاد کیا ہے، اول تو اسلام میں اس کی کوئی اصل و بنیاد نہیں، اور بالفرض ہوتی بھی تو ان احادیث مذکورہ نے واضح طور پر یہ بتلا دیا کہ آپ کے بعد نبوت کی کوئی قسم کسی طرح کی باقی نہیں ہے۔
اسی لئے صحابہ کرام سے لے کر آج تک امت مسلمہ کے سب طبقات کا اجماع اس عقیدہ پر رہا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی کسی قسم کا نبی یا رسول نہیں ہوسکتا جو دعوے کرے وہ کا ذب، منکر قرآن اور کافر ہے۔ اور صحابہ کرام کا سب سے پہلا اجماع اسی مسئلہ پر ہوا جس کی رو سے مسیلمہ کذاب مدعی نبوت سے خلیفہ اول صدیق اکبر کے عہد میں جہاد کر کے اس کو اور اس کے ماننے والوں کو قتل کیا گیا۔
آئمہ سلف اور علماء امت کے اقوال و تصریحات بھی اس معاملہ میں رسالہ ”ختم نبوت“ کے تیسرے حصہ میں بڑی تفصیل سے لکھ دیئے گئے ہیں، اس جگہ چند کلمات نقل کئے جاتے ہیں۔
”اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور رسول اللہ ﷺ نے احادیث متواترہ میں خبر دی ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں تاکہ لوگ سمجھ لیں کہ آپ کے بعد جو شخص اس مقام نبوت کا دعویٰ کرے وہ کذاب، مفتری، دجال، گمراہ، گمراہ کرنے والا ہے، اگرچہ وہ کتنی ہی شعبدہ بازی کرے اور قسم قسم کے جادو اور طلسم اور نیرنگیاں دکھلائے کہ سب کے سب محال اور گمراہی میں عقل والوں کے نزدیک جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اسود عنسی (مدعی نبوت) کے ہاتھ پر یمن میں اور مسیلمہ کذاب (مدعی نبوت) کے ہاتھ پر یمامہ میں اس طرح کے حالات فاسدہ اور بےہودہ اقوال ظاہر کرائے، جن کو دیکھ کر سن کر ہر عقل و فہم والے نے سمجھ لیا کہ یہ دونوں کاذب اور گمراہ ہیں، اللہ ان پر لعنت فرمائے، اسی طرح جو شخص بھی قیامت تک نبوت کا دعویٰ کرے وہ کاذب و کافر ہے، یہاں تک کہ مدعیان نبوت کا یہ سلسلہ مسیح دجال پر ختم ہوگا“
امام غزالی نے اپنی کتاب ”الاقتصادفی الاعتقاد“ میں آیت مذکورہ کی تفسیر اور عقیدہ ختم نبوت کے متعلق یہ الفاظ لکھے ہیں
”بیشک امت نے اس لفظ (یعنی خاتم النبیین اور لا نبی بعدی) سے اور قرائن احوال سے باجماع یہی سمجھا ہے کہ آپ کے بعد ابد تک نہ کوئی نبی ہوگا، اور نہ کوئی رسول اور یہ کہ نہ اس میں کوئی تاویل چل سکتی ہے نہ تخصیص“
اور قاضی عیاض نے اپنی کتاب شفا میں نبی کریم ﷺ کے بعد دعویٰ نبوت کرنیوالے کو کافر اور کذاب اور رسول اللہ ﷺ کی تکذیب کرنیوالا اور آیت مذکورہ کا منکر کہہ کر یہ الفاظ لکھے ہیں
”امت نے اجماع کیا ہے کہ اس کلام کو اپنے ظاہر پر محمول کیا جائے اور اس پر کہ اس آیت کا نفس مفہوم ہی مراد ہے بغیر کسی تاویل یا تخصیص کے اس لئے ان تمام فرقوں کے کفر میں کوئی شک نہیں، (جو کسی مدعی نبوت کی پیروی کریں) بلکہ ان کا کفر قطعی طور سے اجماع امت اور نقل یعنی کتاب و سنت سے ثابت ہے“
رسالہ ختم نبوت کے تیسرے حصہ میں ائمہ دین اور ہر طبقے کے اکابر علماء کے بہت سے اقوال جمع کردیئے گئے ہیں اور جو یہاں نقل کئے گئے ہیں ایک مسلمان کے لئے وہ بھی کافی ہیں واللہ اعلم
Top