Tadabbur-e-Quran - Al-Ahzaab : 41
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِیْرًاۙ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : ایمان والو اذْكُرُوا : یاد کرو تم اللّٰهَ : اللہ ذِكْرًا : یاد كَثِيْرًا : بکثرت
اے ایمان والو ! یاد کرو اللہ کی بہت سی یاد
خلاصہ تفسیر
اے ایمان والو تم (احسانات آلہیہ کو عموماً اور ایسے اکمل رسل کی بعثت کے احسان کو خصوصاً یاد کر کے اس کا یہ شکر ادا کرو کہ) اللہ کو خوب کثرت سے یاد کرو (اس میں سب طاعات آگئیں) اور (اس ذکر وطاعت پر دوام رکھو پس) صبح وشام (یعنی علی الدوام) اس کی تسبیح (و تقدیس) کرتے رہو (یعنی دل سے بھی اور اعضاء سے بھی اور زبان سے بھی پس جملہ اولیٰ سے عموم اعمال و طاعات کا اور جملہ ثانیہ میں عموم از منہ و اوقات کا حاصل ہوگیا یعنی نہ تو ایسا کرو کہ کوئی حکم بجا لائے اور کوئی نہ بجا لائے، اور نہ ایسا کرو کہ کسی دن کوئی کام کرلیا کسی دن نہ کیا، اور جیسا اس نے تم پر بہت احسان کئے ہیں اور آئندہ بھی کرتا رہتا ہے پس بالضرورة مستحق ذکر و شکر ہے، چنانچہ) وہ ایسا (رحیم) ہے کہ وہ (خود بھی) اور (اس کے حکم سے) اس کے فرشتے (بھی) تم پر رحمت بھیجتے رہتے ہیں (اس کا رحمت بھیجنا تو رحمت کرنا ہے اور فرشتوں کا رحمت بھیجنا رحمت کی دعاء کرنا ہے کماقال (آیت) الذین یحملون العرش (الیٰ قولہ) وقہم السیات، اور یہ رحمت بھیجنا اس لئے ہے) تاکہ حق تعالیٰ (ببرکت اس رحمت کے) تم کو (جہالت و ضلالت کی) تاریکیوں سے (علم اور ہدایت کے) نور کی طرف لے آئے (یعنی خدائی رحمت اور دعاء ملائکہ کی برکت ہے کہ تم کو علم اور ہدایت کی توفیق اور اس پر ثبات حاصل ہے کہ یہ ہر وقت متجدد ہوتی رہتی ہے) اور (اس سے ثابت ہوا کہ) اللہ تعالیٰ مومنین پر بہت مہربان ہے (اور یہ رحمت تو مومنین کے حال پر دنیا میں ہے اور آخرت میں بھی وہ مورد رحمت ہوں گے، چنانچہ) وہ جس روز اللہ سے ملیں گے تو ان کو جو سلام ہوگا وہ یہ ہوگا کہ (اللہ تعالیٰ خود ان سے ارشاد فرما دے گا) السلام علیکم (کہ اولاً خود سلام ہی علامت اعزاز کی ہے، پھر جب کہ خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلام ہو کما قال (آیت) سلام قولاً من رب رحیم اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ خود اہل جنت سے فرمائے گا السلام علیکم، رواہ ابن ماجہ وغیرہ اور یہ سلام تو روحانی انعام ہے جس کا حاصل اکرام ہے) اور (آگے جسمانی انعام کی خبر بعنوان عام ہے کہ) اللہ تعالیٰ نے ان (مومنین کے لئے) عمدہ صلہ (جنت میں) تیار کر رکھا ہے (کہ ان کے جانے کی دیر ہے، یہ گئے اور وہ ملا، آگے حضور ﷺ کو خطاب ہے کہ) اے نبی (آپ مشتے چند معترضین کے طعن سے مغموم نہ ہوں، اگر یہ سفہاء آپ کو نہ جانیں تو کیا ہوا ہم نے تو ان بڑی بڑی نعمتوں اور رحمتوں کا جو کہ خطاب مومنین میں مذکور ہوئی ہیں، آپ ہی کو واسطہ بنایا ہے اور آپ کے مخالفین کی سزا کے لئے خود آپ کا بیان کافی قرار دیا گیا ہے کہ ان کے مقابلہ میں آپ سے ثبوت نہ لیا جائے گا، پس اس سے ظاہر ہے کہ آپ ہمارے نزدیک کس درجہ محبوب و مقبول ہیں، چنانچہ) ہم نے بیشک آپ کو اس شان کا رسول بنا کر بھیجا ہے کہ آپ (قیامت کے روز امت کے اعتبار سے خود سرکاری) گواہ ہوں گے (کہ آپ کے بیان کے موافق ان کا فیصلہ ہوگا کما قال انا ارسلنا الیکم رسولاً شاہدا علیکم اور ظاہر ہے کہ خود صاحب معاملہ کو دوسرے فریق اہل معاملہ کے مقابلہ میں گواہ قرار دینا اعلیٰ درجہ کا اکرام اور علو شان ہے جس کا قیامت کے روز ظہور ہوگا) اور (دنیا میں جو آپ کی صفات کمال ظاہر ہیں وہ یہ ہیں کہ) آپ (مومنین کے) بشارت دینے والے ہیں اور (کفار کے) ڈرانے والے ہیں اور (عام طور پر سب کو) اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والے ہیں (اور یہ تبشیر وانذار دعوت تبلیغاً ہے) اور (یوں خود اپنی ذات وصفات و کمالات و عبادات و عادات وغیرہا مجموعی حالات کے اعتبار سے) آپ (سرتاپا نمونہ ہدایت ہونے میں بمنزلہ) ایک روشن چراغ (کے) ہیں (کہ آپ کی ہر حالت طالبان انوار کے لئے سرمایہ ہدایت ہے، پس قیامت میں ان مومنین پر جو کچھ رحمت ہوگی وہ آپ ہی کی ان صفات بشیر و نذیر و داعی وسراج منیر کے واسطہ سے ہے۔ پس آپ اس غم و پریشانی کو الگ کیجئے) اور (اپنے منصبی کام میں لگئے یعنی) مومنین کو بشارت دیجئے کہ ان پر اللہ کی طرف سے بڑا فضل ہونے والا ہے اور (اسی طرح کافروں اور منافقوں کو ڈراتے رہئے جس کو ایک خاص عنوان سے تعبیر کیا ہے وہ یہ کہ) کافروں اور منافقوں کا کہنا نہ کیجئے (رسول اللہ ﷺ سے اس کا تو امکان ہی نہ تھا کہ آپ کفار و منافقین کے کہنے میں آ کر تبلیغ و دعوت چھوڑ دیں، لیکن لوگوں کی طعن وتشنیع سے بچنے کے لئے ممکن تھا کہ آپ اس عملی تبلیغ میں جو نکاح زینب کے ذریعہ مقصود تھی کوئی سستی کریں اس کو کفار کا کہنا ماننے سے تعبیر کردیا گیا) اور ان (کافروں اور منافقوں) کی طرف سے جو (کوئی) ایذاء پہنچے (جیسا اس نکاح میں کہ تبلیغ فعل ہے ایذاء قولی پہنچی) اس کا خیال نہ کیجئے اور (فعلی ایذاء کا بھی اندیشہ نہ کیجئے) اور اگر اس کا وسوسہ آئے تو اللہ پر بھروسہ کیجئے اور اللہ کافی کارساز ہے، (وہ آپ کو ہر ضرر سے بچائے گا اور اگر تبلیغ میں کوئی ظاہری ضرر پہنچتا ہے وہ باطناً نفع ہوتا ہے، وہ وعدہ کفایت و وکالت کے منافی نہیں)۔

معارف و مسائل
سابقہ آیات میں رسول اللہ ﷺ کی تعظیم و تکریم اور آپ کی ایذاء رسانی سے بچنے کے لئے ہدایات کے ضمن میں حضرت زید اور زینب کا قصہ اور اس کی مناسبت سے رسول اللہ ﷺ کا خاتم النبیین ہونا بیان ہوا ہے، آگے بھی آپ کی صفات کمال کا بیان آنے والا ہے۔ اور آپ کی ذات وصفات سب مسلمانوں کے لئے دنیا میں سب سے بڑی نعمت ہیں، ان کا شکر ادا کرنے کے لئے آیت مذکورہ میں ذکر اللہ کی کثرت کا حکم دیا گیا ہے۔
ذکر اللہ ایسی عبادت ہے جس کے لئے کوئی شرط نہیں اور اس کے بکثرت کرنے کا حکم ہے
(آیت) یایہا الذین امنوا ذکر واللہ ذکراً کثیراً ، حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اللہ نے اپنے بندوں پر ذکر اللہ کے سوا کوئی ایسی عبادت عائد نہیں کی جس کی کوئی خاص حد مقرر نہ ہو، نماز پانچ وقت کی اور ہر نماز کی رکعات متعین ہیں، روزے ماہ رمضان کے متعین اور مقرر ہیں، حج بھی خاص مقام پر خاص اعمال مقررہ کرنے کا نام ہے، زکوٰة بھی سال میں ایک ہی مرتبہ فرض ہوتی ہے، مگر ذکر اللہ ایسی عبادت ہے کہ نہ اس کی کوئی حد اور تعداد متعین ہے، نہ کوئی خاص وقت اور زمانہ مقرر ہے، نہ اس کے لئے کوئی خاص ہئیت قیام یا نشست کی مقرر ہے نہ اس کے لئے طاہر اور باوضو ہونا شرط ہے۔ ہر وقت ہر حال میں ذکر اللہ بکثرت کرنے کا حکم ہے، سفر ہو یا حضر، تندرستی ہو یا بیماری، خشکی میں ہو یا دریا میں، رات ہو یا دن ہر حال میں ذکر اللہ کا حکم ہے۔
اسی لئے اس کے ترک میں انسان کا کوئی عذر مسموع نہیں، بجز اس کے عقل و حواس ہی نہ رہیں بےہوش ہوجائے، اس کے علاوہ دوسری عبادات میں بیماری اور مجبوری کے حالات میں انسان کو معذور قرار دے کر عبادت میں اختصار اور کمی یا معافی کی رخصتیں بھی ہیں، مگر ذکر اللہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے کوئی شرط نہیں رکھی۔ اس لئے اس کے ترک میں کسی حال کوئی عذر مسموع بھی نہیں، اور اس کے فضائل و برکات بھی بیشمار ہیں۔
امام احمد نے حضرت ابو الدرداء سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کو خطاب کر کے فرمایا کہ کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتلا دوں جو تمہارے سب اعمال سے بہتر اور تمہارے مالک کے نزدیک سب سے زیادہ مقبول ہے، اور تمہارے درجات بلند کرنے والی ہے اور تمہارے لئے سونے چاندی کے صدقہ و خیرات سے بہتر ہے اور اس سے بھی بہتر ہے کہ تم اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے نکلو اور تمہارا دشمن سے معاملہ ہو تم ان کی گردنیں مار دو وہ تمہاری، صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ وہ کون سی چیز اور کونسا عمل ہے ؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ذکر اللہ عزوجل، ”یعنی اللہ تعالیٰ کی یاد (ابن کثیر)
نیز امام احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے کہ حضرت ابوہریرہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے ایک دعاء سنی ہے جس کو میں کبھی نہیں چھوڑتا، وہ یہ ہے
”یا اللہ مجھے ایسا بنا دے کہ میں تیرا شکر بہت کروں اور تیری نصیحت کا تابع رہوں اور تیرا ذکر کثرت سے کیا کروں اور تیری وصیت کو محفوظ رکھوں“
اس میں رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے اس کی دعا کی کہ ذکر اللہ کی کثرت کی توفیق عطا ہو۔
ایک اعرابی نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ اسلام کے اعمال و فرائض و واجبات تو بہت ہیں، آپ مجھے کوئی ایسی مختصر جامع بات بتلا دیں کہ میں اس کو مضبوطی سے اختیار کرلوں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
”یعنی تیری زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تروتازہ رہنی چاہئے“
اور حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
”یعنی تم اللہ کا ذکر اتنا کرو کہ دیکھنے والے تمہیں دیوانہ کہنے لگیں“
اور حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو لوگ کسی مجلس میں بیٹھیں جس میں اللہ کا ذکر نہ آئے تو قیامت کے روز یہ مجلس ان کے لئے حسرت ثابت ہوگی۔ (رواہ احمد، ابن کثیر)
Top