Maarif-ul-Quran - Al-Ahzaab : 70
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًاۙ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : ایمان والو اتَّقُوا اللّٰهَ : اللہ سے ڈرو وَقُوْلُوْا : اور کہو قَوْلًا : بات سَدِيْدًا : سیدھی
اے ایمان والو ! ڈرتے رہو اللہ سے اور کہو بات سیدھی
عادة اللہ یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کو ایسے جسمانی عیوب سے بھی بری رکھا جاتا ہے جو موجب نفرت ہوں
اس واقعہ میں قوم کے عیب لگانے پر اس سے برات کا حق تعالیٰ نے اتنا اہتمام فرمایا کہ بطور معجزہ پتھر کپڑے لے کر بھاگا اور موسیٰ ؑ اضطراراً لوگوں کے سامنے ننگے آگئے یہ اہتمام اس کی نشان دہی کرتا ہے کہ حق تعالیٰ اپنے انبیاء کے اجسام کو بھی قابل نفرت و تحقیر عیوب سے عموماً پاک اور بری رکھتا ہے، جیسا کہ حدیث بخاری سے یہ بات ثابت ہے کہ انبیاء سب کے سب عالی نسب میں پیدا کئے جاتے ہیں۔ کیونکہ عرفاً جس نسب اور خاندان کو لوگ حقیر سمجھتے ہوں اس کی بات سننے ماننے کے لئے تیار ہونا مشکل ہے۔ اسی طرح تاریخ انبیاء میں کسی پیغمبر کا نابینا، بہرا، گونگا یا ہاتھ پاؤں سے معذور ہونا ثابت نہیں، اور حضرت ایوب ؑ کے واقعہ سے اس پر اعتراض نہیں ہوسکتا کہ وہ بحکمت خداوندی ایک خاص ابتلاء و امتحان کے لئے چند روزہ تکلیف تھی پھر ختم کردی گئی۔ واللہ اعلم۔
(آیت) یایہا الذین امنوا اتقوا اللہ وقولوا قولاً سدیداً۔ یصلح لکم اعمالکم ویغفرلکم ذنوبکم، قول سدید کی تفسیر بعض نے صدق کے ساتھ کی، بعض نے مستقیم اور بعض نے صواب وغیرہ سے کی۔ ابن کثیر نے سب کو نقل کر کے فرمایا کہ سب حق ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ قرآن کریم نے اس جگہ صادق یا مستقیم وغیرہ کے الفاظ چھوڑ کر سدید کا لفظ اختیار فرمایا، کیونکہ لفظ سدید ان تمام اوصاف کا جامع ہے۔ اسی لئے کاشفی نے روح البیان میں فرمایا کہ قول سدید وہ قول ہے جو سچا ہو جھوٹ کا اس میں شائبہ نہ ہو، صواب ہو جس میں خطاء کا شائبہ نہ ہو، ٹھیک بات ہو، ہزل یعنی مذاق و دل لگی نہ ہو، نرم کلام ہو دلخراش نہ ہو۔
Top