Maarif-ul-Quran - Faatir : 15
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلَى اللّٰهِ١ۚ وَ اللّٰهُ هُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ : اے لوگو ! اَنْتُمُ : تم الْفُقَرَآءُ : محتاج اِلَى اللّٰهِ ۚ : اللہ کے وَاللّٰهُ : اور اللہ هُوَ : وہ الْغَنِيُّ : بےنیاز الْحَمِيْدُ : سزاوار حمد
اے لوگو ! تم ہو محتاج اللہ کی طرف اور اللہ وہی ہے بےپروا سب تعریفوں والا
خلاصہ تفسیر
اے لوگو تم (ہی) خدا کے محتاج ہو اور اللہ (تو) بےنیاز (اور خود تمام) خوبیوں والا ہے (پس تمہاری احتیاج دیکھ کر تمہارے لئے توحید وغیرہ کی تعلیم کی گئی ہے، اگر تم نہیں مانو گے تو تم اپنا ضرر کرو گے۔ باقی حق تعالیٰ کو تو بوجہ غنائے ذاتی و کمال ذاتی کے تمہاری یا تمہارے عمل کی کوئی حاجت ہی نہیں کہ اس کے ضرر کا احتمال ہو اور کفر یہ جو ضرر ہونے والا ہے خدا تعالیٰ اس کے فی الحال ایقاع پر بھی قادر ہے چنانچہ) اگر وہ چاہے تو (تمہارے کفر کی سزا میں) تم کو فنا کر دے اور ایک نئی مخلوق پیدا کر دے (جو تمہاری طرح کفر و انکار نہ کریں) اور یہ بات خدا کو کچھ مشکل نہیں (لیکن بمصلحت مہلت دے رکھی ہے۔ غرض یہاں تو وہ ضرر محض محتمل الوقوع ہے، لیکن قیامت میں وہ ضرور واقع ہوجائے گا) اور (اس وقت یہ حالت ہوگی کہ) کوئی دوسرے کا بوجھ (گناہ کا) نہ اٹھاوے گا اور (خود تو کوئی کسی کی کیا رعایت کرتا یہ حالت ہوگی کہ) اگر کوئی بوجھ کا لدا ہوا (یعنی کوئی گنہگار) کسی کو اپنا بوجھ اٹھانے کے لئے بلائے گا (بھی) تب بھی اس میں سے کچھ بھی بوجھ نہ ہٹایا جائے گا، اگرچہ وہ شخص (جس کو اس نے بلایا تھا اس کا) قرابت دار ہی (کیوں نہ) ہو (پس اس وقت پورا ضرر اس کفر و بدعملی کا خود ہی بھگتنا پڑے گا، یہ تو تحزیر منکرین کی ہوگئی۔ آگے حضور ﷺ کا تسلیہ ہے، کہ اے محمد ﷺ آپ ان کے انکار پر جس کی سزا یہ ایک دن ضرور بھگتیں گے اس قدر غم و افسوس کیوں کرتے ہیں) آپ تو (ایسا ڈرانا جس پر نفع مرتب ہو) صرف ایسے لوگوں کو ڈرا سکتے ہیں جو بےدیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور نماز کی پابندی کرتے ہیں (مراد اس الذین سے مومنین ہیں، یعنی آپ کے انداز سے صرف مومنین منتفع ہوتے ہیں فی الحال ہوں یا باعتبار آئندہ کے اور امر مشترک دونوں میں طلب حق ہے۔ مطلب یہ ہے کہ طالب حق کو نفع ہوا کرتا ہے یہ لوگ طالب حق ہیں ہی نہیں، ان سے امید نہ رکھئے) اور (آپ ان کے ایمان نہ لانے سے اس قدر فکر کیوں کرتے ہیں) جو شخص (ایمان لا کر شرک و کفر سے) پاک ہوتا ہے وہ اپنے (نفع) کے لئے پاک ہوتا ہے اور (جو نہیں ایمان لاتا وہاں بھگتے گا، کیونکہ سب کو) اللہ کی طرف لوٹ کر جانا ہے (پس نفع ہے تو ان کا آپ کیوں غم کرتے ہیں) اور (ان لوگوں سے کیا توقع رکھی جائے کہ ان کا علم و ادراک مثل ادراک مؤمنین کے ہو، اور مؤمنین کی طرح یہ بھی حق کو قبول کرلیں اور قبول حق کے ثمرات دینی میں بھی یہ لوگ شریک ہوجائیں، کیونکہ مؤمنین کی مثال حق بینی میں بین آدمی کی سی اور ان کی مثال عدم ادراک حق میں اندھے آدمی کی سی ہے اور اس طرح مومن نے ادراک کے ذریعہ سے جس طریق ہدایت کو اختیار کیا ہے اس طریقہ حق کی مثال نور کی سی ہے اور کافر نے عدم ادراک حق سے جس طریقہ کو اختیار کیا ہے اس کی مثال ظلمت کی سی ہے کما قال تعالیٰ (آیت) وجعلنا لہ نورا یمشی بہ فی الناس کمن مثلہ فی الظلمت لیس بخارج منھا اور اسی طرح جو ثمرہ جنت وغیرہ اس طریق پر مرتب ہوگا اس کی مثال ظل بار کی سی ہے اور جو ثمرہ جہنم وغیرہ طریق باطل پر مرتب ہوگا، اس کی مثال جلتی دھوپ کی سی ہے، کماقال تعالیٰ (آیت) ظلم ممدو دالی قولہ فی مسموم اور ظاہر ہے کہ) اندھا اور آنکھوں والا برابر نہیں اور نہ تاریکی اور روشنی اور چھاؤں اور دھوپ (پس نہ ان کا اور مومنین کا علم و ادراک برابر ہوگا اور نہ ان کا طریقہ اور نہ اس طریقہ کا ثمرہ اور (مومن اور کافر میں جو تفاوت بینا و نابینا کا سا کہا گیا ہے تو اس سے مقصود نفی کمی کی ہے نہ کہ زیادتی کی۔ کیونکہ ان میں تفاوت مردہ اور زندہ کا سا ہے، پس ان کی برابری کی نفی کے لئے یوں بھی کہنا صحیح ہے کہ) زندے اور مردے برابر نہیں ہو سکتے (اور جب یہ مردے ہیں تو مردوں کو زندہ کرنا تو خدا کی قدرت میں ہے بندہ کی قدرت میں نہیں۔ پس اگر خدا ہی نے ان کو ہدایت کردی تب تو اور بات ہے، کیونکہ) اللہ جس کو چاہتا ہے سنوا دیتا ہے (باقی آپ کی کوشش سے یہ لوگ حق کو قبول نہیں کریں گے، کیونکہ ان کی مثال تو مردوں کی آپ نے سن لی اور آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں (مدفون) ہیں۔ (لیکن اگر یہ نہ مانیں تو آپ غم میں نہ پڑیئے کیونکہ) آپ تو (کافروں کے حق میں) صرف ڈرانے والے ہیں (آپ کے ذمہ یہ نہیں کہ وہ کافر ڈر کر مان بھی جائیں اور یہ ڈرانا آپ کا اپنی طرف سے نہیں جیسا منکرین نبوت کہتے تھے بلکہ ہماری طرف سے ہے کیونکہ) ہم ہی نے آپ کو (دین) حق دے کر (مسلمانوں کو) خوشخبری سنانے والا اور (کافروں کو) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے اور (یہ بھیجنا کوئی انوکھی بات نہیں جیسا کافر کہتے تھے بلکہ) کوئی ایسی امت نہیں ہوئی جس میں کوئی ڈر سنانے والا (یعنی پیغمبر نہ گذرا ہو اور اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلا دیں تو (آپ ان گزشتہ پیغمبروں کا جن کا ابھی اجمالاً ذکر ہوا ہے اور تفصیلاً دوسری آیات میں ذکر ہے کافروں کے ساتھ معاملہ یاد کر کے اپنے دل کو سمجھا لیجئے کیونکہ) جو لوگ ان سے پہلے ہو گذرے ہیں انہوں نے بھی (اپنے وقت کے پیغمبروں کو جھٹلایا تھا (اور) ان کے پاس بھی ان کے پیغمبر معجزے اور صحیفے اور روشن کتابیں لے کر آئے تھے، (یعنی بعضے صحائف اور بعضی بڑی کتابیں اور بعضے صرف معجزات تصدیق نبوت کے لئے اور احکام انبیاء سابقین لے کر آئے) پھر (جب انہوں نے جھٹلایا تو) میں نے ان کافروں کو پکڑ لیا سو (دیکھو) میرا کیسا عذاب ہوا (اسی طرح ان کے قوت پر ان کو سزا دوں گا۔)
Top