Maarif-ul-Quran - Az-Zumar : 31
ثُمَّ اِنَّكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُوْنَ۠   ۧ
ثُمَّ : پھر اِنَّكُمْ : بیشک تم يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن عِنْدَ : پاس رَبِّكُمْ : اپنا رب تَخْتَصِمُوْنَ : تم جھگڑو گے
پھر مقرر تم قیامت کے دن اپنے رب کے آگے جھگڑو گے
محشر کی عدالت میں مظلوم کا حق ظالم سے وصول کرنے کی صورت
(آیت) ثُمَّ اِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُوْنَ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہاں لفظ انکم میں مومن و کافر اور مسلمان ظالم و مظلوم سب داخل ہیں یہ سب اپنے اپنے مقدمات اپنے رب کی عدالت میں پیش کریں گے اور اللہ تعالیٰ ظالم سے مظلوم کا حق دلوائیں گے وہ کافر ہو یا مومن۔ اور صورت اس ادائیگی حقوق کی وہ ہوگی جو صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ کی روایت سے آئی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کے ذمہ کسی کا حق ہے اس کو چاہئے کہ دنیا ہی میں اس کو ادا یا معاف کرا کر حلال ہوجائے۔ کیونکہ آخرت میں درہم و دینار تو ہوں گے نہیں۔ اگر ظالم کے پاس کچھ اعمال صالحہ ہیں تو بمقدار ظلم یہ اعمال اس سے لے کر مظلوم کو دے دیئے جاویں گے۔ اور اگر اس کے پاس حسنات نہیں ہیں تو مظلوم کی سیئات اور گناہوں کو اس سے لے کر ظالم پر ڈال دیا جائے گا۔
اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک روز صحابہ کرام سے سوال کیا کہ آپ جانتے ہو کہ مفلس کون ہوتا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ہم تو مفلس اس کو سمجھتے ہیں جس کے پاس نہ کوئی نقد رقم ہو نہ ضرورت کا سامان۔ آپ نے فرمایا کہ اصلی اور حقیقی مفلس میری امت میں وہ شخص ہے جو قیامت میں بہت سے نیک اعمال، نماز، روزہ، زکوٰة، وغیر لے کر آئے گا مگر اس کا حال یہ ہوگا کہ اس نے دنیا میں کسی کو گالی دی، کسی پر تہمت باندھی، کسی کا مال ناجائز طور پر کھالیا، کسی کو قتل کرایا، کسی کو مارپیٹ سے ستایا تو یہ سب مظلوم اللہ کے سامنے اپنے مظالم کا مطالبہ کریں گے اور اس کی حسنات اس میں تقسیم کردی جائیں گی پھر جب یہ حسنات ختم ہوجائیں گی اور مظلوموں کے حقوق ابھی باقی ہوں گے تو مظلوموں کے گناہ اس پر ڈال دیئے جاویں گے۔ اور اس کو جہنم میں ڈال دیا جاوے گا۔ (تو یہ شخص سب کچھ سامان ہونے کے باوجود قیامت میں مفلس رہ گیا، یہی اصلی مفلس ہے)۔
اور طبرانی نے ایک معتبر سند کے ساتھ حضرت ابو ایوب انصاری سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سب سے پہلے جو مقدمہ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیش ہوگا وہ مرد اور اس کی بیوی کا ہوگا اور بخدا کہ وہاں زبان نہیں بولے گی۔ بلکہ عورت کے ہاتھ پاؤں گواہی دیں گے کہ وہ اپنے شوہر پر کیا کیا عیب لگایا کرتی تھی اور اسی طرح مرد کے ہاتھ پاؤں اس پر گواہی دیں گے کہ وہ کس طرح اپنی بیوی کو تکلیف و ایذا پہنچایا کرتا تھا۔ اس کے بعد ہر آدمی کے سامنے اس کے نوکر چاکر لائے جائیں گے ان کی شکایات کا فیصلہ کیا جائے گا۔ پھر عام بازار کے لوگ جن سے اس کے معاملات رہے تھے وہ پیش ہوں گے اگر اس نے ان میں سے کسی پر ظلم کیا ہے تو اس کا حق دلوایا جائے گا۔
Top