Maarif-ul-Quran - An-Nisaa : 135
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَآءَ لِلّٰهِ وَ لَوْ عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ١ۚ اِنْ یَّكُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰهُ اَوْلٰى بِهِمَا١۫ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوٰۤى اَنْ تَعْدِلُوْا١ۚ وَ اِنْ تَلْوٗۤا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) كُوْنُوْا : ہوجاؤ قَوّٰمِيْنَ : قائم رہنے والے بِالْقِسْطِ : انصاف پر شُهَدَآءَ لِلّٰهِ : گواہی دینے والے اللہ کیلئے وَلَوْ : اگرچہ عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ : خود تمہارے اوپر (خلاف) اَوِ : یا الْوَالِدَيْنِ : ماں باپ وَ : اور الْاَقْرَبِيْنَ : قرابت دار اِنْ يَّكُنْ : اگر (چاہے) ہو غَنِيًّا : کوئی مالدار اَوْ فَقِيْرًا : یا محتاج فَاللّٰهُ : پس اللہ اَوْلٰى : خیر خواہ بِهِمَا : ان کا فَلَا : سو۔ نہ تَتَّبِعُوا : پیروی کرو الْهَوٰٓى : خواہش اَنْ تَعْدِلُوْا : کہ انصاف کرو وَاِنْ تَلْوٗٓا : اور اگر تم زبان دباؤ گے اَوْ تُعْرِضُوْا : یا پہلو تہی کروگے فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے بِمَا : جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو خَبِيْرًا : باخبر
اے ایمان والو قائم رہو انصاف پر گواہی دو اللہ کی طرف اگرچہ نقصان ہو تمہارا یا ماں باپ کا یا قرابت والوں کا اگر کوئی مالدار ہے یا محتاج ہے تو اللہ ان کا خیر خواہ تم سے زیادہ ہے سو تم پیروی نہ کرو دل کی خواہش کی انصاف کرنے میں اور اگر تم زبان ملو گے یا بچاجاؤ گے تو اللہ تمہارے سب کاموں سے واقف ہے۔
خلاصہ تفسیر
اے ایمان والو (تمام معاملات میں ادائے حق کے وقت بھی اور فیصلہ کے وقت بھی) انصاف پر خوب قائم رہنے والے (اور اقرار یا شہادت کی نوبت آوے تو) اللہ (کی خوشنودی کے لئے (سچی) گواہی (اور اظہار) دینے والے رہو، اگرچہ (وہ گواہی اور اظہار) اپنی ہی ذات کے خلاف ہو، (جس کو اقرار کہتے ہیں) یا کہ والدین اور دوسرے رشتہ داروں کے مقابلہ میں ہو (اور گواہی کے وقت یہ خیال نہ کرو کہ جس کے مقابل ہمیں ہم گواہی دے رہے ہیں یہ امیر ہے اس کو نفع پہنچنا چاہئے تاکہ اس سے بےمروتی نہ ہو، یا یہ کہ یہ غریب ہے، اس کا کیسے نقصان کردیں، تم گواہی دینے میں کسی کی امیری غریبی یا نفع و نقصان کو نہ دیکھو، کیونکہ) وہ شخص (جس کے خلاف گواہی دینی پڑے گی) اگر امیر ہے تو اور غریب ہے تو، دونوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو زیادہ تعلق ہے (اتنا تعلق تم کو نہیں، کیونکہ تمہارا تعلق جس قدر ہے وہ بھی انہی کا دیا ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ کا جو تعلق ہے وہ تمہارا دیا ہوا نہیں، پھر جب باوجود قوی تعلق کے اللہ تعالیٰ نے ان کی مصلحت اسی میں رکھی ہے کہ گواہی میں حق بات کہی جائے خواہ اس سے وقتی طور پر کچھ نقصان بھی پہنچ جائے تو تم ضعیف تعلق کے باوجود اپنی شہادت میں ان کی ایک عارضی مصلحت کا کیوں خیال کرتے ہو) سو تم (اس شہادت میں) خواہش نفس کا اتباع مت کرنا، کبھی تم حق سے ہٹ جاؤ اور اگر تم کج بیانی کرو گے (یعنی غلط گواہی دو گے) یا پہلو تہی کرو گے (یعنی شہادت کو ٹالو گے) تو (یاد رکھنا) بلاشبہ اللہ تعالیٰ تمہارے سب اعمال کی پوری خبر رکھتے ہیں۔
معارف و مسائل
دنیا میں انبیاء (علیہم السلام) اور آسمانی کتابیں بھیجنے کا اصل مقصد عدل و انصاف کا قیام ہے اسی سے دنیا کا امن وامان قائم رہ سکتا ہے۔ سورة نساء کی اس آیت میں تمام مسلمانوں کو عدل و انصاف پر قائم رہنے اور سچی گواہی دینے کی ہدایت کی گئی ہے، اور جو چیزیں قیام عدل یا سچی گواہی میں رکاوٹ ہو سکتی ہیں ان کو نہایت بلیغ انداز میں دور کیا گیا ہے، اسی مضمون کی ایک آیت سورة مائدہ میں بھی آنے والی ہے، دونوں کا مضمون بلکہ الفاظ بھی تقریباً مشترک ہیں اور سورة حدید کی آیت 52 سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں آدم ؑ کو خلیفتہ اللہ بنا کر بھیجنے کا اور پھر ان کے بعد دوسرے انبیاء (علیہم السلام) کو یکے بعد دیگرے بحیثیت خلیفتہ اللہ بھیجتے رہنے کا اور ان کے ساتھ بہت سی کتابیں اور صحیفے نازل فرمانے کا اہم مقصد یہی تھا کہ دنیا میں انصاف اور اس کے ذریعہ امن وامان قائم ہو، ہر فرد انسانی اپنے اپنے دائرہ اختیار میں انصاف کو اپنا شعار بنالے اور جو سرکش لوگ وعظ و پند اور تعلیم و تبلیغ کے ذریعے عدل وا نصاف پر نہ آئیں، اپنی سرکشی پر اڑے رہیں، ان کو قانونی سیاست اور تعزیر و سزا کے ذریعہ انصاف پر قائم رہنے کے لئے مجبور کیا جائے۔
سورة حدید کی پچیسویں آیت میں اس حقیقت کو اس طرح واضح فرمایا ہے
”یعنی ہم نے بھیجے ہیں اپنے رسول نشانیاں دے کر اور اتاری ان کے ساتھ کتاب اور ترازو تاکہ لوگ سیدھے رہیں انصاف پر اور ہم نے اتارا لوہا اس میں بڑا رعب ہے اور اس سے لوگوں کے کام چلتے ہیں۔“
اس سے معلوم ہوا کہ بعثت انبیاء اور تنزیل کتب سماویہ کا سارا نظام انصاف ہی کے لئے کھڑا کیا گیا ہے رسولوں کا بھیجنا اور کتابوں کا نازل کرنا اسی مقصد کے لئے عمل میں آیا ہے اور آخر میں لوہا اتارنے کا ذکر کر کے اس طرف بھی اشارہ فرما دیا کہ سب لوگوں کو انصاف پر قائم رکھنے کے لئے صرف وعظ و نصیحت ہی کافی نہ ہوگی، بلکہ کچھ شریر لوگ ایسے بھی ہوں گے جن کو لوہے کی زنجیروں اور دوسرے ہتھیاروں سے مرعوب کر کے انصاف پر قائم کیا جائے گا۔
عدل و انصاف پر قائم رہنا صرف حکومت کا فریضہ نہیں بلکہ ہر انسان کا مکلف ہے۔
سورة حدید کی آیت مذکورہ اور سورة نساء کی اس آیت میں اسی طرح سورة مائدہ کی آیت کونوا قومین للہ شھدآء بالقسط ولایجرمنکم شنان قوم علی الاتعدلوا اعدلواھو اقرب للتقوی واتقواللہ ان اللہ خبیر بما تعملون، (آیت 8) سے واضح طور پر یہ ہدایت دی گئی ہے کہ انصاف قائم کرنا اور اس پر قائم رہنا صرف حکومت اور عدالت کا فریضہ نہیں بلکہ ہر انسان اس کا مکلف و مخاطب ہے کہ وہ خود انصاف پر قائم رہے اور دوسروں کو انصاف پر قائم رکھنے کے لئے کوشش کرے، ہاں انصاف کا صرف ایک درجہ حکومت اور حکام کے ساتھ مخصوص ہے وہ یہ کہ شریر اور سرکش انسان جب انصاف کے خلاف اڑ جائیں، نہ خود انصاف پر قائم رہیں نہ دوسروں کو عدل و انصاف کرنے دیں، تو حاکمانہ تعزیر اور سزا کی ضرورت ہے یہ اقامت عدل و انصاف ظاہر ہے کہ حکومت ہی کرسکتی ہے جس کے ہاتھ میں اقتدار ہے۔
آج کی دنیا میں جاہل عوام کو چھوڑیئے لکھئے پڑھے تعلیم یافتہ حضرات بھی یہ سمجھتے ہیں کہ انصاف کرنا صرف حکومت و عدالت کا فریضہ ہے، عوام اس کے ذمہ دار نہیں ہیں اور یہی وہ سب سے بڑی وجہ ہے جس نے ہر ملک ہر سلطنت میں حکومت اور عوام کو دو متضاد فریق بنادیا ہے، راعی اور رعیت کے درمیان خلاف و اختلاف کی وسیع خلیج حائل کردی ہے، ہر ملک کے عوام اپنی حکومت سے عدل و انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں، لیکن خود کسی انصاف پر قائم رہنے کے لئے تیار نہیں ہوتے، اسی کا نتیجہ ہے جو دنیا آنکھوں سے دیکھ رہی ہے کہ قانون معطل ہے، جرائم کی روز افزوں ترقی ہے، آج ہر ملک میں قانون سازی کے لئے اسمبلیاں قائم ہیں، ان پر کروڑوں روپیہ خرچ ہوتا ہے، ان کے نمائندے منتخب کرنے کے لئے الیکشن میں خدا کی پوری زمین ہل جاتی ہے اور پھر یہ پورے ملک کا دل و دماغ ملک کی ضروریات اور لوگوں کے جذبات و احساسات کو سامنے رکھتے ہوئے بڑی احتیاط کے ساتھ قانون بناتے ہیں اور پھر رائے عامہ پھر اس کے نفاذ کے لئے حکومت کی لاتعداد مشینری حرکت میں آتی ہے جس کے ہزاروں بلکہ لاکھوں شعبے ہوتے ہیں اور ہر شعبہ میں ملک کے بڑے بڑے آزمودہ کار لوگوں کی محنتیں بروئے کار آتی ہیں، لیکن چلی ہوئی رسوم کی دنیا سے ذرا نظر کو اونچا کر کے دیکھا جائے اور جن لوگوں کو خواہ مخواہ تہذیب اور شائستگی کا ٹھیکہ دارمان لیا گیا ہے تھوڑی دیر کے لئے ان کو رانہ تقلید سے نکل کر حقیقت کا جائزہ لیا جائے تو ہر شخص بےساختہ یہ کہنے پر مجبور ہوگا کہ
نگاہ خلق میں دنیا کی رونق بڑھتی جاتی ہے
مری نظروں میں پھیکا رنگ محفل ہوتا جاتا ہے
اب سے سو سال پہلے 7581 ء سے 7581 ء تک کا ہی موازنہ کریں اعداد و شمار محفوظ ہیں وہ گواہی دیں گے کہ جوں جوں قانون سازی بڑھی، قانون میں عوام کی مرضی کی نمائش بڑھی اور تنفیذ قانون کے لئے مشینری بڑھی، ایک پولیس کے بجائے مختلف اقسام کی پولیس بروئے کار آئی اتنے ہی روز بروز جرائم بڑھے، اور لوگ انصاف سے دور ہوتے چلے گئے اور اسی رفتار سے دنیا کی بدامنی بڑھتی چلی گئی۔
امن عالم کی ضمانت صرف عقیدہ آخرت اور خوف خدا دے سکتا ہے۔ کوئی مرد رشید نہیں جو آنکھ کھول کر دیکھے اور چلتی ہوئی رسموں کی جکڑ بندی کو توڑ کر ذرا رسول عربی ﷺ کے لائے ہوئے پیغام کو سچ سمجھے اور اس حقیقت پر غور کرے کہ دنیا کا امن سکون نرے تعزیرات سے نہ کہی حاصل ہوا نہ آئندہ ہوگا، عالم کے امن وامان کی ضمانت صرف عقیدہ آخرت اور خوف خدا دے سکتا ہے، جس کے ذریعہ سارے فرائض راعی اور رعی اور عوام اور حکومت میں مشترک ہوجاتے ہیں اور ہر شخص اپنی ذمہ داری کو محسوس کرنے لگتا ہے، قانون کے احترام و حفاظت کے لئے عوام یہ کہہ کر آزاد نہیں ہوجاتے کہ یہ کام حکام کا ہے، قرآن مجید کی مذکورہ آیتیں بسلسلہ قیام عدل و انصاف اسی انقلابی عقیدہ کی تلقین پر ختم کی گئی ہیں۔
سورة نسآء کی اس آیت کے تم پر ان اللہ کان بما تعملون خبیراً کا ارشاد ہوا اور سورة مائدہ کی آیت کے آخر میں اول تقوی کی ہدایت فرمائی اور پھر فرمایا ان اللہ خبیر بما تعملون اور سورة حدید کی آیت کے آخر میں ارشاد ہواان اللہ قوی عزیز
ان تینوں میں حکام اور عوام دونوں کو عدل و انصاف پر قائم رہنے اور قائم رکھنے کی ہدایت دینے کے بعد خواتم آیات میں سب کی نظریں اس حقیقت کی طرف پھیر دی گئی ہیں جو انسان کی زندگی اور اس کے خیالات اور جذبات میں انقلاب عظیم پیدا کرنے والی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی قوت و سلطنت اس کے سامنے حاضری اور حساب کتاب اور جزا و سزا کا تصور یہی وہ چیز تھی جس نے اب سے سو برس پہلے کی ناخواندہ دنیا کو آج کی نسبت بہت زیادہ امن و سکون بخشا ہوا تھا اور یہی وہ چیز ہے جس کے نظر انداز کردینے کی وجہ سے آج کی ترقی یافتہ آسمانوں سے باتیں کرنے والی، سیارے اڑانے والی دنیا امن و چین سے محروم ہے۔
روشن خیال دنیا سن لے کہ سائنس کی حیرت انگیز ترقیوں سے وہ آسمان کی طرف چڑھ سکتے ہیں، سیاروں پر جاسکتے ہیں، سمندر میں جاسکتے ہیں، لیکن امن وامان اور سکون و اطمینان جو ان سارے سامان اور سارے کارخانوں کا اصل مقصد ہے وہ نہ ان کو کسی سیارے میں ہاتھ آئے گا، نہ کسی نئی سے نئی ایجاد میں، وہ ملے گا تو پیغمبر عربی روحی فداہ ﷺ کے پیغام اور ان کی تعلیمات میں، اللہ تعالیٰ کو ماننے اور آخرت کے حساب پر عقیدہ رکھنے میں الابذکر اللہ تطمئن القلوب، سائنس کے حیرت انکشافات روز بروز اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور اس کی بےمثال صنعت کاری کو اور زیادہ روشن کرتے جاتے ہیں، جن کے سامنے ہر انسانی ترقی اپنے عجز و درماندگی کا اعتراف کر کے رہ جاتی ہے، مگر
”چہ سود چوں دل وانا و چشم بینا نیست“
قرآن حکیم نے ایک طرف تو دنیا کے سارے نظام کا منشاء ہی قیام عدل و انصاف بتلایا، دوسری طرف اس کا ایک بےمثال انتظام ایسا عجیب و غریب فرمایا کہ اگر اس کے پورے نظام کو اپنایا جائے اور اس پر عمل کیا جائے تو یہی خونخوار و بدکار دنیا ایک ایسے صالح معاشرے میں تبدیل ہوجائے جو آخرت کی جنت سے پہلے نقد جنت اور ارشاد قرآنی ولمن خاف مقام ربہ جنثن جس کی ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ خدا سے ڈرنے والوں کو دو جنتیں ملیں گی، ایک آخرت میں، دوسری نقد دنیا ہی میں اس کا ظہور مشاہدہ میں آجائے اور یہ کوئی صرف فرضی خیالی یا خیالی اسکیم نہیں، اس پیغام کے لانے والے مقدس رسول ﷺ نے اس کو عملی صورت میں لا کر چھوڑا ہے اور ان کے بعد خلفائے راشدین اور دوسرے متبع سنت سلاطین نے جب بھی اس پر عمل کیا تو شیر اور بکری کے ایک گھاٹ پر پانی پینے کی فرضی مثال ایک حقیقت بن کر لوگوں کے مشاہدہ میں آگئی، غریب و امیر مزدور و سرمایہ دار تفرقہ یک سر مٹ گیا، قانون کا احترام ہر فرد اپنے گھروں کے بند کمروں میں رات کی تاریکیوں میں کرنے لگا، یہ کوئی افسانہ نہیں، تاریخی حقائق ہیں، جن کا اعتراف غیروں نے بھی کیا، اور ہر صاف دل غیر مسلم بھی اس کے ماننے پر مجبور ہوا۔
مضمون آیت کے بعد آیت کی تفسیر تفصیلاً دیکھئے
مذکورہ آیت میں کونوا قومین بالقسط فرمایا گیا، قسط بکسر القاف کے معنی ہیں عدل و انصاف اور عدل و انصاف کی حقیقت یہ ہے کہ ہر صاحب حق کا حق پورا ادا کیا جائے اس کے عموم میں اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی داخل ہیں اور سب قسم کے انسانی حقوق بھی، اس لئے قیام بالقسط کے مفہوم میں یہ بھی داخل ہے کہ کوئی کسی پر ظلم نہ کرے اور یہ بھی داخل ہے کہ ظالم کو ظلم سے روکا جائے، مظلوم کی حمایت کی جائے اور یہ بھی داخل ہے کہ ظالم کو ظلم سے روکنے اور مظلوم کا حق دلوانے کے لئے شہادت کی ضررت پیش آئے تو شہادت سے گریز نہ کیا جائے اور یہ بھی داخل ہے کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں حکومت اور انتظام ہے، جب دو فریق کا کوئی مقدمہ ان کے سامنے پیش ہو تو فریقین کے ساتھ برابری کا معاملہ کریں، کسی ایک طرف کسی طرح کا میلان نہ ہونے دیں، گواہوں کے بیانات غور سے سنیں، معاملہ کی تحقیق میں اپنی پوری کوشش خرچ کریں، پھر فیصلہ میں پورے پورے عدل وا نصاف کا معاملہ رکھیں۔
عدل و انصاف کے قیام میں رکاوٹ بننے والے اسباب۔
سورة نساء اور سورة مائدہ کی یہ دونوں آیتیں اگرچہ مختلف سورتوں کی ہیں لیکن مضمون دونوں کا تقریباً قدر مشترک ہے، فرق اتنا ہے کہ عدل انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والی عادة دو چیزیں ہوا کرتی ہیں ایک کسی کی محبت و قرابت یا دوستی وتعلق جس کا تقاضا شاہد کے دل میں یہ ہوتا ہے کہ شہادت ان کے موافق دی جائے تاکہ یہ نقصان سے محفوظ رہیں یا ان کو نفع پہنچنے اور فیصلہ کرنے والے قاضی یا جج کے دل میں اس تعلق کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ فیصلہ ان کے حق میں دے، دوسری چیز کسی کی عداوت و دشمنی ہے، جو شاہد کو اس کے خلاف شہادت پر آمادہ کرسکتی ہے اور قاضی اور جج کو اس کے خلاف فیصلہ دینے کے باعث ہو سکتی ہے، غرض محبت و عداوت دو ایسی چیزیں ہیں جو انسان کو عدل و انصاف کی راہ سے ہٹا کر ظلم و جور میں مبتلا کرسکتی ہیں، سورة نساء اور سورة مائدہ کی دونوں آیتوں میں میں انہی رکاوٹوں کو دور کیا گیا ہے، سورة نساء کی آیت میں قرابت وتعلق کی رکاوٹ دور کرنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے، ارشاد ہےاوالوالدین والاقربین یعنی اگرچہ تمہاری شہادت اپنے ماں باپ یا قریبی رشتہ داروں ہی کے خلاف پڑے تو بھی حق بات کہنے اور سچی شہادت دینے میں اس تعلق کا لحاظ نہ کرو۔
اور سورة مائدہ کی آیت میں عداوت اور دشمنی کی رکاوٹ کو دور کیا گیا ہے، چناچہ فرمایا لایجرمنکم شنان قوم علی الاتعدلوا اعدلواھو اقرب للتقوی یعنی کسی قوم کا بغض و عداوت بھی تمہارے لئے اس کا باعث نہ ہونا چاہئے کہ راہ عدل کو چھوڑ کر ان کے خلاف گواہی یا فیصلہ دینے لگو۔
دونوں آیتوں کے عنوان و تعبیر میں بھی تھوڑا فرق ہے، سورة نساء کی آیت میں قومین بالقسط شھدآء للہ فرمایا گیا اور سورة مائدہ کی آیت میں قومین للہ شھدآء بالقسط ارشاد ہوا، یعنی پہلی آیت میں دو چیزوں کی ہدایت ہے، ایک قیام بالقسط اور دوسری شہادت للہ، اور دوسری آیت میں بھی دو ہی چیزیں مامور بہ ہی، مگر عنوان بدل کر قیام اللہ اور شہادت بالقسط۔
اکثر حضرات مفسرین نے فرمایا کہ اس تغیر عنوان سے یہ معلوم ہوا کہ یہ دونوں چیزیں دراصل ایک ہی حقیقت کی دو تعبیریں ہیں، کہیں قیام بالقسط اور شہادت للہ سے تعبیر کردیا گیا، کہیں قیام للہ اور شہادت بالقسط کے الفاظ سے بیان فرمایا گیا، ان دونوں آیتوں کے طرز بیان میں یہ بات خاص طور پر قابل نظر ہے کہ کونوا قومین بالقسط یا قومین للہ کا طویل جملہ اختیار فرمایا گیا، حالانکہ عدل و انصاف کا حکم صرف ایک لفظ اقسطوا کے ذریعہ بھی دیا جاسکتا تھا، اس طویل جملہ کے اختیار کرنے میں اس طرف اشارہ کرنا منظور ہے کہ اتفاقی طور پر کسی معاملہ میں عدل و انصاف کردینے سے ذمہ داری پوری نہیں ہوجاتی، کیونکہ کسی نہ کسی معاملہ میں انصاف ہوجاتا تو ایک ایسا طبعی امر ہے کہ ہر برے سے برے اور ظالم سے ظالم حاکم پر بھی صادق ہے کہ اس سے بھی کسی معاملہ میں تو انصاف ہو ہی جاتا ہے، اس جملہ میں لفظ قوامین استعمال فرما کر یہ بتلایا کہ عدل و انصاف پر ہمیشہ ہر وقت ہر حال اور ہر دوست دشمن کے لئے قائم رہنا ضروری ہے۔
پھر ان دونوں آیتوں میں پوری دنیا کو عدل و انصاف پر قائم کرنے اور قائم کرانے کے لئے جو زریں اصول اختیار کئے گئے ہیں وہ بھی قرآن عظیم ہی کی خصوصیات میں سے ہیں۔
ان میں سے ایک اہم چیز تو یہ ہے کہ حکام اور عوام سب کو اللہ تعالیٰ کی قدرت قاہرہ اور روز جزاء کے حساب سے ڈرا کر اس کے لئے تیار کیا گیا ہے کہ عوام خود بھی قانون کا احترام کریں اور حکام جو تنفیذ قانون کے ذمہ دار ہیں وہ بھی تنفیذ قانون میں خدا و آخرت کو سامنے رکھ کر خلق خدا کے خادم بنیں، قانون کو خدمت خلق اور اصلاح عالم کا ذریعہ بنائیں، لوگوں کی پریشانیوں میں اضافہ اور مظلوم کو دفتر گردی کے چکر میں پھنسا کر مزید ظلم پر ظلم کا سبب نہ بنائیں، قانون کو اپنی ذلیل خواہشات یا چند ٹکوں میں فروخت نہ کریں، قومین للہ یاشھدآء للہ فرما کر حکام و عوام دونوں کو للہیت اور اخلاص عمل کی دعوت دی گئی ہے۔
دوسری بنیادی چیز یہ ہے کہ عدل و انصاف کو قیام کی ذمہ داری پورے افراد انسانی پر ڈال دی گئی ہے، سورة نساء اور مائدہ میں تو اس کا مخاطب یایھا الذین امنوا فرما کر پوری امت مسلمہ کو بنادیا گیا ہے اور سورة حدید میں لیقوم الناس بالقسط فرما کر اس فریضہ کو تمام افراد انسانی پر عائد کردیا گیا ہے، سورة نساء کی آیت میں ولو علی انفسکم فرما کر اس طرف ہدایت فرما دی کہ انصاف کا مطالبہ صرف دوسروں ہی سے نہ ہو، بلکہ اپنے نفس سے بھی ہونا چاہئے، اپنے نفس کے خلاف کوئی بیان یا اظہار کرنا پڑے تو بھی حق و انصاف کے خلاف کچھ نہ بولے، اگرچہ اس کا نقصان اس کی ذات ہی پر پڑتا ہو، کیونکہ یہ نقصان حقیر و قلیل اور عارضی ہے اور جھوٹ بول کر اس کی جان بچالی گئی تو قیامت کا شدید عذاب اپنی جان کے لئے خرید لیا۔
Top