Maarif-ul-Quran - Al-Ghaafir : 32
وَ یٰقَوْمِ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ یَوْمَ التَّنَادِۙ
وَيٰقَوْمِ : اور اے میری قوم اِنِّىْٓ اَخَافُ : میں ڈرتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر يَوْمَ التَّنَادِ : دن چیخ و پکار
اور اے قوم میری میں ڈرتا ہوں کہ تم پر آئے دن ہانک پکار کا
(آیت) وَيٰقَوْمِ اِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ يَوْمَ التَّنَادِ۔ تناد بکسر دال مخفف ہے۔ تنادی کا جس کے معنی ہیں باہم ایک دوسرے کو نداء اور آواز دینے کے۔ قیامت کے روز کو یوم التناد اس لئے کہا گیا کہ اس روز بیشمار ندائیں اور آوازیں ہوں گی۔ جن کا کچھ ذکر خلاصہ تفسیر میں آ چکا ہے۔ اور حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ کا ایک منادی نداء دے گا کہ اللہ کے مخالف لوگ کھڑے ہوجائیں۔ اس سے مراد وہ لوگ ہوں گے جو تقدیر کا انکار کرتے تھے۔ اور پھر اصحاب جنت دوزخ والوں کو اور دوزخ والے اصحاب جنت کو اور اصحاب اعراف دونوں کو نداء دے کر اپنی اپنی باتیں کریں گے۔ اور اس وقت ہر خوش نصیب اور بدنصیب کا نام مع ولدیت لے کر اس کے نتیجہ کا اعلان کیا جائے گا کہ فلاں ابن فلاں سعید و کامیاب ہوگیا اس کے بعد شقاوت کا کوئی احتمال نہیں رہا اور فلاں بن فلاں شقی و بدبخت ہوگیا، اب اس کی نیک بختی کا کوئی احتمال نہیں رہا۔ (رواہ ابن ابی حاتم فی السنتہ مظہری) مسند بزار و بیہقی میں حضرت انس کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سعادت و شقاوت کا اعلان وزن اعمال کے بعد ہوگا۔
اور حضرت ابوحازم اعرج ؓ سے روایت ہے کہ وہ اپنے نفس کو مخاطب کر کے فرمایا کرتے تھے کہ اے اعرج قیامت کے روز نداء دی جائے گی کہ فلاں قسم کے گناہ کرنے والے کھڑے ہوجاویں تو ان کے ساتھ کھڑا ہوگا کہ پھر ندا دی جائے گی کہ فلاں قسم کے گناہ کرنے والے کھڑے ہوں تو ان کے ساتھ بھی کھڑا ہوگا، پھر ندا دی جاوے گی کہ فلاں قسم کے گناہ کرنے والے کھڑے ہوں تو ان کے ساتھ بھی کھڑا ہوگا۔ اور میں سمجھتا ہوں ہر گناہ کے اعلان کے وقت تجھے ان کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا (کیونکہ تم نے ہر قسم کے گناہ جمع کر رکھے ہیں)۔ (اخرجہ ابونعیم۔ مظہری)
Top