Tafseer-e-Majidi - Al-Anbiyaa : 84
فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَكَشَفْنَا مَا بِهٖ مِنْ ضُرٍّ وَّ اٰتَیْنٰهُ اَهْلَهٗ وَ مِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَ ذِكْرٰى لِلْعٰبِدِیْنَ
فَاسْتَجَبْنَاج : تو ہم نے قبول کرلی لَهٗ : اس کی فَكَشَفْنَا : پس ہم نے کھول دی مَا : جو بِهٖ : اس کو مِنْ ضُرٍّ : تکلیف وَّاٰتَيْنٰهُ : اور ہم نے دئیے اسے اَهْلَهٗ : اس کے گھر والے وَمِثْلَهُمْ : اور ان جیسے مَّعَهُمْ : ان کے ساتھ رَحْمَةً : رحمت (فرما کر) مِّنْ : سے عِنْدِنَا : اپنے پاس وَذِكْرٰي : اور نصیحت لِلْعٰبِدِيْنَ : عبادت کرنے والوں کے لیے
سو ہم نے ان کی (دعا) قبول کرلی اور انہیں جو تکلیف تھی اس کو دور کردیا اور ہم نے انہیں ان کا کنبہ عطا کردیا اور ان کے ساتھ ان کے برابر اور بھی اپنی رحمت خاص کے باعث اور تاکہ یادگار رہے اہل عبادت کے لئے،112۔
112۔ یعنی تاکہ اہل تقوی و عبادت یاد رکھیں کہ صابروں کو کیسے کیسے صلے ملتے ہیں۔ (آیت) ” رحمۃ وذکری “۔ رحمت اور ذکری دونوں بطور سبب بیان ہوئے ہیں، فرق یہ ہے کہ رحمت کی حیثیت علت فاعلی مؤثر کی ہے۔ اور وہ زمانا متقدم ہے۔ اور (آیت) ” ذکری “۔ حیثیت علت غائی مؤخر کی ہے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ماجرا رحمت تھا خود حضرت ایوب کے حق میں اور یادگار ان کے بعد والوں کے لئے کہ وہ بھی انکے نقش قدم پر چل کر ان کے سے مرتبے حاصل کریں، یعنی رحمۃ لایوب وتذکرۃ لغیرہ من العابدین لیصبروا کصبرہ (مدارک) توریت میں ہے :۔” اور خداوند نے ایوب کی طرف توجہ کی ...... اور خداوند نے ایوب کو آگے کی نسبت سے دونی دولت عنایت کی۔ اور اس کے سب بھائی اور سب بہن اور اس کے اگلے سب جان پہچان اس کے پاس آئے اور اس کے گھر میں انہوں نے اس کے ساتھ کھانا کھایا ..... اور خداوند نے ایوب کے آخر عمر میں ابتدا کی نسبت سے بہت برکت عطا کی، اور وہ چودہ ہزار بھیڑوں اور چھ ہزار اونٹوں اور ایک ہزار جوڑے بیل اور ایک ہزار گدہوں کا مالک ہوا۔ “ (ایوب۔ 42: 10۔ 13) آیت سے صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ دعا صبر کے منافی نہیں۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ آیت سے دو مسئلے نکلتے ہیں ایک یہ کہ دعا منافی توکل نہیں، دوسرے احساس حاجت مندی سے (جو غلبہ عبدیت سے پیدا ہوتی ہے) اللہ سے شکوہ کرنا رضا کے منافی نہیں۔
Top