Maarif-ul-Quran - Al-Fath : 2
لِّیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ وَ یُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكَ وَ یَهْدِیَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاۙ
لِّيَغْفِرَ : تاکہ بخشدے لَكَ اللّٰهُ : آپ کیلئے اللہ مَا تَقَدَّمَ : جو پہلے گزرے مِنْ : سے ذَنْۢبِكَ : آپکے ذنب (الزام) وَمَا تَاَخَّرَ : اور جو پیچھے ہوئے وَيُتِمَّ : اور وہ مکمل کردے نِعْمَتَهٗ : اپنی نعمت عَلَيْكَ : آپ پر وَيَهْدِيَكَ : اور آپ کی رہنمائی کرے صِرَاطًا : راستہ مُّسْتَقِيْمًا : سیدھا
تاکہ معاف کرے تجھ کو اللہ جو آگے ہوچکے تیرے گناہ اور جو پیچھے رہے اور پورا کردے تجھ پر اپنا احسان اور چلائے تجھ کو سیدھی راہ
(آیت) لِّيَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَمَا تَاَخَّرَ ، اس لیغفر کا لام اگر تعلیل یعنی بیان علت کے لئے لیا جائے تو حاصل اس کا یہ ہے کہ یہ فتح مبین آپ کو اس لئے دی گئی ہے تاکہ آپ کو یہ تین کمالات حاصل ہوجائیں جن کا اس آیت میں ذکر ہے، ان میں پہلی چیز تمام اگلی پچھلی لغزشوں اور خطاؤں کی معافی ہے۔ سورة محمد میں پہلے یہ معلوم ہوچکا ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) گناہوں سے معصوم ہوتے ہیں ان کی طرف قرآن میں جہاں کہیں ذنب یا عصیان وغیرہ کے الفاظ منسوب کئے گئے وہ ان کے مقام عالی کی مناسبت سے ایسے کاموں کے لئے استعمال کئے گئے جو خلاف اولیٰ تھے مگر نبوت کے مقام بلند کے اعتبار سے غیر افضل پر عمل کرنا بھی ایسی لغزش ہے جس کو قرآن نے بطور تہدید کے ذنب و گناہ سے تعبیر کیا ہے اور ماتقدم سے مراد وہ لغزشیں ہیں جو نبوت سے پہلے ہوئیں اور ماتاخر سے مراد وہ لغزشیں جو رسالت و نبوت کے بعد صادر ہوئیں (مظہری) اور فتح مبین کا اس مغفرت کے لئے سبب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس فتح مبین سے بہت لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوں گے اور اسلام کی دعوت کا عام ہوجانا آپ کی زندگی کا مقصد عظیم اور آپ کے اجر وثواب کو بہت بڑھانے والا ہے اور اجر وثواب کی زیادتی سبب ہوتی ہے کفارہ سیئات کی (بیان القرآن)
(اآیت) وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَـقِيْمًا، یہ دوسری نعمت ہے جو اس فتح مبین پر مرتب ہوئی، یہاں یہ سوال ہوتا ہے کہ صراط مستقیم پر تو آپ اول ہی سے ہیں اور نہ صرف خود صراط مستقیم پر ہیں بلکہ دنیا کو اسی صراط مستقیم کی دعوت دینا آپ کا رات دن کا مشغلہ ہے تو ہجرت کے چھٹے سال فتح مبین کے ذریعہ صراط مستقیم کی ہدایت کے کیا معنی ہیں اس کا جواب سورة فاتحہ کی تفسیر لفظ ہدایت کی تحقیق میں گزر چکا ہے کہ ہدایت ایک ایسا مفہوم عام ہے کہ جس کے درجات غیر متناہی ہیں وجہ یہ ہے کہ ہدایت کے معنی منزل مقصود کا راستہ دکھلانا یا اس پر پہنچانا ہے اور اصل منزل مقصود ہر انسان کی حق تعالیٰ کی رضا اور قرب حاصل کرنا ہے اور اس رضا و قرب کے متضاوت درجات بیشمار ہیں، ایک درجہ حاصل ہونے کے بعد دوسرے اور تیسرے درجہ کی ضرورت باقی رہتی ہے جس سے کوئی بڑے سے بڑا ولی بلکہ نبی و رسول بھی بےنیاز نہیں ہوسکتا، اسی لئے (آیت) اھدنا الصراط المستقیم کی دعا نماز کی ہر رکعت میں کرنے کی تعلیم جیسے امت کو ہے خود رسول کریم ﷺ کو بھی ہے جس کا حاصل صراط مستقیم کی ہدایت یعنی اللہ تعالیٰ کے قرب و رضا کے درجات میں ترقی حاصل کرنا ہے اس فتح مبین پر حق تعالیٰ نے اسی قرب و رضا کا کوئی بہت اعلیٰ مقام آپ کو عطا فرمایا جس کو یھدیک کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
Top